ملک میں 70 فیصد گریجویٹس خواتین بے روزگار ہیں، گیلپ اینڈ پرائیڈ ریسرچ

486

کراچی: لیبر فورس 2020-21کے تجزیہ کے مطابق ملک میں مقیم تقریباً70فیصد خواتین انجینئرنگ گریجویٹس یا تو بے روزگار ہیں یا لیبر فورس سے باہرہیں، ا س وقت ملک میں 28920خواتین انجینئر نگ گریجویٹس میں سے 6054(20.9فیصد) بے روزگاراور 14720(50.9فیصد) افرادی قوت سے باہر ہیں جبکہ صرف 8146(28فیصد)برسرِ روزگار ہیں۔

گیلپ پاکستان اور پرائیڈ کی مشترکہ تحقیق میں لیبر فورس 2020-21کے اعداو شمار کاتجزیہ کیا گیا۔ دونوں اداروں نے خواتین انجینئر نگ گریجویٹس(بشمول بیچلرز ایم ایس /ایم ایس سی،، ایم فل یا انجینئر نگ کے کسی بھی شعبہ میں پی ایچ ڈی)او ر لیبر مارکیٹ میں ان کی پوزیشن کے بارے میں مشترکہ تحقیقات کی گئی ہیں۔

یہ تجزیہ دیہی اور شہری علاقوں کے لحاظ سے 3کیٹگریز برسرِ روزگار، بے روزگار اور افرادی قوت سے باہر کے اعدادو شمار کو ظاہر کرتاہے۔ تجزیہ میں علاقائی بنیادوں پرانجینئرز کے روزگار کے فرق کا بھی پتہ چلتا ہے۔پاکستان کے مجموعی انجینئرز گریجویٹس میں سے 78.9فیصد شہری اور 21.1فیصد انجینئرز دیہی علاقوں میں مقیم ہیں۔ دیہی علاقوں میں 43.9فیصدانجینئرز گریجویٹس ملازم جبکہ 36.3فیصد بے روزگار ہیں۔

 دیہی علاقوں میں لیبر فورس باہر رہنے کا انتخاب کرنے والے گریجویٹس انجینئرز کا تناسب قومی اوسط کے50.9فیصد کے مقابلہ میں 19.8فیصد ہے۔ شہری علاقوں کے اعدادو شمار کے مطابق 24فیصدخواتین انجینئرز گریجویٹس ملازم جبکہ 16.8فیصد بے روزگار ہیں جبکہ شہری علاقوں میں خواتین انجینئر گریجویٹس کا59.2فیصد بڑاحصہ لیبر فورس سے باہر ہے۔

شہری اور دیہی علاقوں کے موازنہ سے معلوم ہوتاہے کہ دیہی علاقوں کی 32.8فیصدخواتین انجینئرگریجویٹس کے مقابلے میں شہری علاقوں کی67.2فیصد خواتین انجینئرگریجویٹس کیلئے روزگار کے مواقع نمایاں طورپر زیادہ ہیں جبکہ شہری علاقوں کی 63.5فیصدکے مقابلہ میں دیہی علاقوں میں 36.5فیصد خواتین انجینئر گریجویٹس بے روزگار ہیں۔ اسی طرح مجموعی طورپر 14720 انجینئر گریجویٹس لیبر فورس سے باہر ہیں جن میں سے 91.8فیصدکا شہری علاقوں اور 8.2فیصد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 64.2فیصد انجینئرنگ گریجویٹس جنہوں نے لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کیا ہے وہ شادی شدہ ہیں اور 28.42فیصد نے کبھی شادی نہیں کی۔ 50.9فیصد خواتین انجینئرنگ گریجویٹس کی عمر25سے 34سال کے درمیان ہے جبکہ 21.7فیصد کی عمر 35سے 44سال ہے۔

 گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ خواتین کا بے روزگار ہونا یا کام میں دلچسپی نہ لینا ایک اہم مسئلہ ہے جس پر بات چیت کی ضرورت ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق 10میں سے صرف 3خواتین انجینئر ز کام کررہی ہیں۔ گورنمنٹ یونیورسٹی سے تیار ہونے والے ایک عام انجینئرکو 50لاکھ روپے تک سبسڈی ملتی ہے۔ اگر یہ خواتین گریجویٹس کام نہیں کررہیں تو حکومت کی طرف سے50لاکھ روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہورہی ہے۔ پاکستان جیسے معاشی طورپر کمزور ملک کیلئے اتنی بڑی رقم ضائع ہونے پرنہ صرف پالیسی سازوں بلکہ ٹیکس دہندگان کیلئے بھی تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔

پرائیڈ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عمر خالد نے سروے کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ تمام خواتین انجینئرنگ گریجویٹس میں سے نصف لیبر فورس سے باہر رہنے کا انتخاب کرتی ہیں اور لیبر فورس سے باہر ان گریجویٹس کی بڑی اکثریت شادی شدہ اور شہری علاقوں میں مقیم ہے۔ یہ اکثریت بہتر جگہ پر شادی کے امکانات کو محفوظ بنانے کیلئے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کے سماجی رجحان کی موجودگی کا اشارہ ہے۔ حکومت کو کم ازکم پبلک سیکٹر انجینئرنگ کالجوں /یونیورسٹیز میں سیٹیں مختص کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی زرِ مبادلہ بچایاجاسکے۔

رپورٹس کی موجودہ سیریز لیبر فورس 2020-21کو دیکھے گی جو کہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس(PBS)کی جانب سے لیبر مارکیٹ کے اعدادو شمار کو مرتب کرنے کیلئے ایک قومی سروے ہے۔ سروے میں پاکستان بھر سے تقریباً  99900گھرانوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا تھا اور اس میں پہلی مرتبہ ضلعی سطح کے نتائج سامنے آئے ہیں۔

دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے اور یہ ڈیٹا انجینئرنگ گریجویٹس کیلئے روزگار کے مواقعوں کو بہتر بنانے کیلئے ٹارگٹڈ پالیسی کی اہمیت کو اجاگر کرتاہے۔اس کے علاوہ خواتین کا پبلک سیکٹر کی انجینئرنگ یونیورسٹیز میں انتہائی رعائتی فیس پر داخلہ ان کے گریجویشن کے بعد اپنے منتخب کردہ شعبہ میں خدمات انجام دینے کے عہد سے مشروط کیا جاسکتاہے۔

اس سروے کے نتائج  ‘ڈاکٹر برائیڈز’کے رجحان کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ خواتین میڈیکل گریجویٹس کے حوالے سے سروے میں معلوم ہوا کہ بہت سے خاندان اپنی بیٹیوں کوپیشہ ورانہ  تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں شادی کیلئے مناسب میچ تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔