ڈاکٹر عبدالقدیرخان بھو پالی

794

سب سے پہلے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں کہ جو دکھ آپ کو ہمارے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام کے ساتھ بھوپالی لکھنے سے ہوا مگر یقین جانیے اس سے زیادہ دکھ خود ہم کو بھی ہوا اور ڈاکٹر صاحب کے نام کے ساتھ محسن پاکستان کے بجائے بھوپالی لکھتے ہوئے ہمارا قلم بھی لرز رہا تھا اس عظیم شخصیت کے ساتھ نمک حراموں احسان فراموشوں نے جو سلوک کیا وہ بھی نا قابل برداشت ہے۔ ایک شخص جو وطن کی محبت میں ہالینڈ کی آرام دہ اور پر سکون زندگی چھوڑ کر ملک کی خاطر دوڑا چلا آیا اور پھر اس کو اہم خدمات کے عوض سرکاری اعزازات سے بھی نوازا گیا سب سے بڑھ کر قوم نے اس کو محسن پاکستان کا لازوال خطاب دیا پھر وہ متعصب حکمرانوں کے سلوک سے تنگ آ کر خود کو مہاجر کہنے پر مجبور ہوا۔ جس نے کبھی اپنے آپ کو بھوپالی بھی نہ کہا وہ اپنے آپ کو مہاجر کہہ رہا تھا اس دکھ کو اہل قلم یعنی صحافی برادری نے بھی زیادہ محسوس کیا اور پھر آخر کار ممتاز کالم نگار صحافی اور مشہور اینکر جاوید چودھری نے ڈاکٹر صاحب سے ایک ایسا سوال کر ڈالا کہ ڈاکٹر صاحب کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ چودھری صاحب کا سوال تھا ہم 28 مئی 1998 میں چلے جائیں جب پاکستان ایٹمی قوت بننے جا رہا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف کوئی کمپین کی جا رہی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس بڑے پروجیکٹ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا حصہ نہیں ڈاکٹر صاحب آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے خلاف یہ کمپین کون کر رہا تھا ڈاکٹر صاحب نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر پھٹ پڑے دیکھیے جناب بات کھری لگے گی بری لگے گی میں مہاجر تھا۔ نہ جٹ تھا، نہ جاٹ تھا، نہ یہ تھا، نہ وہ تھا یہ لوگوں کی محبت ہے کہ مجھے اس طریقے سے قبول کیا صرف اس لیے کہ میں نے یہ کام کیا آج تک پاکستان میں کوئی شخص یا فارنر ایسا نہیں جس کو یہ شک ہو کہ یہ کام میں نے نہیں کیا اگر یہ ویپن میں نہ بناتا تو کشمیر چلا گیا تھا لاہور بھی چلا جاتا میں منہ پھٹ آدمی ہوں میں نے یہ پوزیشن خوشامد کر کے حاصل نہیں کی۔

انٹرویو تو کافی طویل تھا لیکن ہم آتے ہیں اب دوسرے تاریخی انٹرویو کی طرف ڈاکٹر صاحب کو ناکردہ گناہ کی پاداش میں نظر بند کر دیا گیا تھا پھر طویل قانونی جدوجہد کے بعد لاہورہائی کوٹ نے انہیں آزاد شہری قرار دے دیا تو جیو ٹی وی کے پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ کے میزبان سہیل وڑائچ اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پہنچے تو پولیس اور رینجر کے اہلکاروں نے کیمرے اندر لے جانے کی اجازت نہ دی کافی دیر بحث و مباحثہ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کوہسار مارکیٹ جانے کا دلیرانہ فیصلہ کیا مگر یہاں پر بھی انتظامیہ نے روک تھام جاری رکھی، پھر میڈیا کے آنے اور ڈاکٹر صاحب کی جرأت و بہادری کی وجہ سے ایک طرف ہو لیے مگر فٹ پاتھ پر رکھی میز کرسی استعمال کرنے کی اجازت نہ دی تو ڈاکٹر صاحب فٹ پاتھ پر ہی بیٹھ گئے تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فٹ پاتھ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں اپنی نظر بندی سے متعلق سوال پر ڈاکٹر صاحب بولے میری بیوی نے میرا بڑا ساتھ دیا میری دو بیٹیاں ہیں دونوں شادی شدہ ہیں بڑی بیٹی دبئی میں رہتی ہے اس کی بیٹی ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ چھوٹی بیٹی کے تین بچے ہیں وہ ہمارے گھر سے 200 گز کے فاصلے پر رہتی ہے مگر تین تین چار چار مہینے ملنے کی اجازت نہ ملتی تھی اور ہم ان بچوں سے بھی نہیں مل سکتے تھے ہمارے فیملی ڈاکٹر تک کو اجازت نہ تھی ہمارے بہن بھائیوں کو بھی چار چار پانچ پانچ ماہ بعد کبھی کبھار ملنے کی اجازت ہوتی تھی۔

سہیل وڑائچ کے اس سوال پر کہ آپ تو ہالینڈ میں اچھی زندگی بسر کر رہے تھے پھر پاکستان کیوں چلے آئے ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا 1974 میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ہم نے محسوس کیا کہ پاکستان کا وجود خطرے میں ہے اس لیے ہم سب کچھ چھوڑ کر پاکستان چلے آئے ہم یہاں خالی ہاتھ نہیں آئے تھے اپنے ساتھ دو لاکھ ڈالر لے کر آئے تھے پھر میری بیوی کے والدین نے اس کو بہت کچھ دیا تھا اور اس کی پنشن بھی آتی تھی وہ ہم نے بینک کے منتھلی انکم اسکیم میں جمع کرا دی وہاں سے جو رقم ملتی تھی اس سے اچھی خاصی گزر بسر ہو رہی تھی پھر میری بیوی کے والد کا انتقال ہوا تو میری بیوی کی والدہ پاکستان چلی آئیں انہوں نے میری بیوی کو پانچ لاکھ ڈالر دیے جو اس نے اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں جمع کرا دیے مگر نواز شریف کی بدمعاشی دیکھیے اس نے وہ ضبط کرلیے پھر قانونی جدوجہد کے بعد رقم واپس ملی مگر پاکستانی روپوں میں یہ ایک قسم کی بدمعاشی اور غداری تھی۔ سہیل وڈائچ کے اس سوال پر کہ اپ کو کسی چیز کا پچھتاوا ہے؟ اس قوم کے لیے کام کرنے کا میرے لیے بہت سے آپشن تھے میں پروفیسر بھی بن سکتا تھا مگر جب میں نے محسوس کیا کہ میرا ملک خطرے میں ہے تو میں سب کچھ چھوڑ کر یہاں چلا آیا مجھے 3 ہزار روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی پھر 25 سال سروس کے بعد 4466 روپے پنشن مقرر ہوئی تھی مگر جب حکام کو پتا چلا کہ میرا کوئی اور ذرائع آمدنی نہیں اور میں اپنے بہن بھائیوں سے لے کر گزاراہ کر رہا ہوں تو میری پنشن 19 ہزار روپے کر دی گئی انٹرویو تویہ بھی طویل تھا مگر ہم اس کا اختتام محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں جو انہوں نے مرحوم عامر لیاقت کے پروگرام میں ادا کیے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ہم بھوپالیوں کو فخر ہے کہ ہم میں نہ تو کوئی غدار پیدا ہوا اور نہ ہی قادیانی۔