سڈنی میں ایفام آسٹریلیا کا دو روزہ کنونشن شروع

1186
Epham Australia

تحریر: عارف الحق عارف۔

آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر سڈنی میں اس ملک کے تقریبا” 8 لاکھ مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت ایفام کا پہلا کنونشن شروع ہو گیا۔ جس میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلمان اپنے خاندانوں کے ساتھ شریک ہیں۔ شرکاء میں زیادہ تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ آسٹریلیا میں ۱۹۹۴ میں قائم ہونے والے اسلامک فورم آف آسٹریلیا مسلمز کا ملک بھر میں یہ پہلا کنونشن ہے جو ایفام کے لئے بڑا چیلنج تھا لیکن اس کے عہدیداروں کی ٹیم کی مشترکہ منصوبہ بندی اور ان تھک محنت کے نتیجے میں یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے۔

اس کنونشن کی خاص کامیابی یہ تھی کہ اس میں آسٹریلیا کی سیاسی قیادت اور مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے عملی طور شرکت کی اور اپنے ہرقسم کے تعاون کا یقین دلایا اس طرح ملک کی سیاسی اور اسلامی قیادت نے ایفام کو آسٹریلیا کے مسلمانوں کی واحد بڑی اور منظم جماعت کا درجہ دے دیا ہے۔اس میں شریک ہونے والوں کی بڑی اکثریت بلاشبہ پاکستانیوں کی ہے لیکن اس میں انڈیا اور دوسرے اسلامی ممالک کے لوگ بھی شریک تھے۔

افتتاحی اجلاس کا کلیدی خطاب ڈیلس امریکہ سے آئے ہوئے بڑے دینی اسکالر ڈاکٹر یاسر قاضی کا تھا لیکن ملک کی وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور ایک مسلمان رکن پارلیمنٹ کی شرکت اور خطاب سے اس کنونشن کی اہمیت بڑھ گئی ہے ایک شہر کے مسلمان میئر عمرے پر تھے اور انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں اس کی کامیابی پر ایفام کے عہدیداروں اور ان کی ٹیم کو مبارک باد دی۔

اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں ایک وفاقی وزیر ملٹی کلچرازم اور لیڈر آف دی ہاؤس اسٹیفن کیمپر، مفتی اعظم آسٹریلیا شیخ ڈاکٹر ابراہیم ابو محمد، آسٹریلیا کے اماموں کی نیشنل کونسل کے صدر شیخ شادی السلیمان، رکن پارلیمنٹ ٹونی برکے، ریاستی اسمبلی کے رکن وارن کربی، بوسنیا نژاد مسلمان رکن اپارلیمنٹ ایڈ حیسک، بلیک ٹاؤن کونسل کے میئر ٹونی بلیس ڈیل اور پیرامتا کونسل کے میئر پیرے ایسبر نے اپنی تقریروں کا آغاز السلام علیکم سے اور دوران تقریر کئی بار ان شااللہ کے الفاظ ادا کئے ان کی تقریروں کا خلاصہ یہ تھا کہ آسٹریلیا کے مسلمان اس ملک کے شہری ہیں اور ملک کی تعمیر ترقی میں اپنا حصہ عمدگی کے ساتھ ادا کررہے ہیں۔ان کا اس ملک پر اتنا ہی حق ہے جتنا یہاں رہنے والے کسی اور کا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں تاکہ ان کا کردار مزید موثر ہوسکے۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے یقین دلایا کہ مسلمان ملک کی آبادی کا ساڑھے تین فیصد ہیں اور ان کے سیاسی اور مذہبی حقوق کا پوری طرح تحفظ کیا جائے گا۔ پرامتا کونسل کی ایک پیکہا ہے اس کنونشن کا آسٹریلیا کے عام عوام اور خاص طور مسلمانوں پر بہت اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

شہر بینکس ٹاؤن کے مسلمان میئر بلال ہائک عمرے پر تھے اور انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں اس کی کامیابی پر ایفام کے عہدیداروں اور ان کی ٹیم کو مبارک باد دی۔ امریکہ کے مشہور اسکالر ڈاکٹر یاسر قاضی نے کلیدی خطاب میں زور دیا کہ مغربی ممالک میں اپنی آئندہ نسلوں کے تحفظ اور ان کی دینی تربیت کی منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ممساجد کے ساتھ ساتھ بچوں کی دینی اور دنیاوی تربیت کےلئے ہمیں بڑے بڑے ادارے اور انسٹی ٹیوٹ قائم کرنا ہوں گے۔ جس جس ملک اور قوم نے ایسا نہیں وہاں تیسری اور چوٹی نسل کے بعد ان میں اسلام غائب ہو گیا اور وہ یا ملحد ہوگئے یا انہوں نے دوسرے مذاہب اختیار کرلئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک سو سال بعد یعنی ۲۱۲۳ کی نسل کی تعلیم و تربیت کی اب سے فکر کرنی چائیے۔انہوں نے آسٹریلیا کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس ملک کی تعمیرو ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور قائد آنہ رول ادا کریں اور سب سے بڑھ کر براہ راست تبلیغ کے بجائے اپنے اندروہ تمام خوبیاں پیدا کریں جن کی تعلیم ہمارا دین دیتا ہے اور وہ انسانیت اور کردار پیدا کریں جن کو دیکھ کر غیر مسلم متاثر ہوں اور اسلام لائیں۔

ایفام کے صدر رئیس احمد خان کا کہنا تھا کہ اس وقت جب کہ باطل طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں ہم مسلمانوں کو اپنے ہر طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ہر سطح پر اتحاد کا عملی مظاہرہ کرنا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے پہلی طرح اس طرح کے کنونشن کا انعقاد بڑا چیلنج تھا لیکن ہماری ٹیم نے دن رات محنت کے ساتھ کام کیا اور آج وہ اس کنونشن کو کامیاب دیکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کر تے ہیں کہ اس کے فضل سے یہ کامیابی ملی ہے۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا اس کنونشن سے آسٹریلیا کے مسلمانوں خاص طور پر بچوں پر بڑا اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور ان کو یہ پیغام ملے گا کہ وہ اس ملک میں تنہا نہیں ہیں، آج کے کنونشن کے کامیابی سے انعقاد سے ان کا بھی حوصلہ بلند ہوا ہے اور وہ اعلان کرتے ہیں ہیں کہ آئندہ سے ایفام کے زیر اہتمام ہر سال ایسا ہی کنونشن منعقد کیا جاتا رہے گا۔