’’انتخابات پہلے یا انتخابی اصلاحات‘‘

711

الیکشن کمیشن نے جنوری 2024 کے آخر تک ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے جس کی تیاری کے لیے تمام محکموں کو اطلاع کر دی گئی ہے۔ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر اور حتمی 30 نومبر 2023 تک شایع کر دی جائے گی اور پھر قوانین کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو 54 روز کی انتخابی مہم کا وقت دیا جائے گا۔ اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کے شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کا امتحان ہوگا دوسری جانب پیپلز پارٹی نے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کے یہ غیر آئینی اقدام ہے اور وہ اس سلسلے میں عدلیہ سے رجوع کریں گے۔ یعنی ایک بار پھر انتخابات سے قبل ہی انتخابات کی شفافیت پر ملک کی دو بڑی جماعتوں نے سوال اٹھا دیا ہے جبکہ سابقہ دو حکومتیں ابھی تک لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبہ سے باہر نہیں آئی ہیں یہ عجیب بات ہے حکومتوں میں رہتے ہوئے جو کام وہ خود نہ کر سکے اس کا مطالبہ نگران حکومت سے ہے۔

نئی حلقہ بندی پر انتخابات کا مطالبہ تو سیاسی جماعتوں کا تھا جس کا مقصد انتخابات کو آگے بڑھانا تھا مگر عوامی سوچ اور امنگ نہ تو نئی حلقہ بندی کی تھی اور نہ ہی لیول پلیئنگ فیلڈ کی، ملک کے تمام ووٹرز انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کے متمنی تھے جس میں آئین پاکستان کی رو سے امیدواران کی اہلیت، قابلیت و صلاحیت کا معیار مقرر کرنا تھا ضروری تھا کہ متوقع امیدوار آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا اُترتا ہو یہ اصلاحات اس لیے بھی ضروری تھیں کہ کوئی ایسا شخص انتخابات میں حصہ نہ لے سکے جو کسی قسم کی کرپشن یا کرپشن کے الزام، کسی قسم کی چوری یا رشوت خوری میں ملوث ہو، وہ نیب ایف آئی اے یا دیگر سرکاری ایجنسیوں کو مطلوب نہ ہو اس پر کسی قسم کی کوئی ایف آئی آر درج نہ ہوئی ہو مذہب اور ملک دشمن لوگوں سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو وغیرہ مگر ان اصلاحات کے بنا صرف نئی حلقہ بندی کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان وہ اقدام ہے جس سے نئی منتخب حکومت کا تاثر تو دنیا کو دیا جاسکے گا مگر ان انتخابات کے نتیجے میں ملک کی معاشرت، معیشت اور ثقافت میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ممکن نہیں اس لا حاصل عمل سے ملک کی اکثریت کو خط غربت کی لکیر سے اوپر اور ملک میں پانچ فی صد فیوڈل طبقے کا ظلم جبر اور ان کی لوٹ کھسوٹ سے بے کس عوام کی رہائی ممکن نہیں اور نہ ہی ملک کو ایک بڑا معاشی حب بنانے کی دعویداری کو پورا کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سابقہ اشرافیہ اور چوروں کی صف بندی اور ان کے نئے عوامی نعروں پر کام شروع ہو چکا ہے۔

مجوزہ انتخابات گویا پرانی حویلی اور بوسیدہ عمارت پر نئی ملمع سازی سے زیادہ کچھ نہیں مجوزہ انتخابات ایک بار پھر ملک میں اربوں کے اخراجات اس کی معاشی گراوٹ اور بد حالی میں اضافہ کا باعث ہوں گے اگر انتخابی اصلاحات کے بغیر صرف الیکشن ہی مطلوب ہیں تو پھر نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ گزشتہ تین انتخابات کے تنائج کی بنیاد پر پارٹی پوزیشن کا اعلان کر دیں تاکہ ملک میں تو چور اور میں چور کا نعرہ لگانے والے ایک بار پھر مسلط ہو کر اپنا اپنا حصہ حاصل کر لیں اور ملک جو اس بار ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا اسے آئندہ چند مہینوں میں اس نہج پر پہنچایا جا سکے یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ کی تمنا

اور خواہش بھی اسی لیے ہے کے اب اس ملک میں تمام تر لوٹ کھسوٹ کے باوجود بھی انہیں وہ کچھ حاصل نہیں ہو رہا جو اس ملک کو ڈیفالٹ ہونے کے نتیجے میں انہیں ملے گا۔ دوسری بات یہ کہ ملک بھر میں بھانت بھانت کی چھوٹی بڑی سیکڑوں جماعتوں کی موجودگی جن کا کوئی سیاسی کردار نہیں ان کے بارے میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے ان میں کچھ ایسی بھی ہیں جن کے لیڈر اور کارکنان کی تعداد ان کی تاسیس تا حال واحد سے جمع میں نہیں پہنچی اور بہت سی ایسی بھی ہیں جن کے خاندان میں سے کوئی ایک بھی ان کے کاز اور مقاصد میں ان کے ساتھ نہیں کچھ ایسی بھی ہیں جن میں کارکنان کم اور لیڈر زیادہ ہوتے ہیں اور کچھ ایسی بھی ہیں جو الیکشن سے پہلے مختلف جماعتوں سے مستعار لیے ہوئے با اثر افراد پر مشتمل ہوتیں ہیں جن کے ووٹ عام آدمی نہیں خیال عام ہے کہ خلائی مخلوق کاسٹ کرتیں ہیں اس طرح کی سیاسی جماعتوں کے انبوہ میں ووٹرز کا ذہن بٹ جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں وہ شعوری ووٹ جو ملک کو اچھے حکمران دے سکے ممکن نہیں رہتا ان جماعتوں میں کچھ ایسی بھی ہیں جو ملک اور قوم کی بے حد مخلص مگر اشرافیہ کو نا پسند ہیں ان کی امانت و دیانت پر کبھی کوئی انگشت نمائی نہیں کرتا مگر بوقت انتخاب ہر ووٹر کے ہاتھوں میں پکڑی مہر صداقت منافقت کا روپ دھار کر انہیں اس شہادت حق کے فریضہ سے یہ کہہ کر روک دیتی ہے کہ یہ تمہارے کام کے لوگ نہیں یہ نہ تمہیں جوتے ماریں گے اور نہ ہی جوتے مارنے والے عملے کی تعداد بڑھائیں گے یہ تمہارے کسی بے جا مطالبے کو پورا نہیں کریں گے ان کو ووٹ دے کر تم اپنی مستقبل کی خرابی کے خود ذمے دار ہوگے کیونکہ

یہ لوگ مخلص تو ہیں مگر یہ تمہارے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں یہ لوگ قرون اولی کی تاریخ کا مکمل ادراک تو رکھتے ہیں مگر انہیں آج کی جدید دنیا کے تقاضوں میں ڈھالنے کی صلاحیت سے نا بلد ہیں ان میں آج کے دور کا کوئی محقق، سائنسدان، معیشت و قانون دان، آئی ٹی شعبے کا ماہر، سودی نظام کا متبادل فراہم کرنے والے دماغ، صحت و ابلاغ کے ماہر ڈاکٹر اور فلاسفر، ملکی دفاع اور دفاعی ٹیکنالوجی کے ماہرین حتیٰ کہ نچلی سطح پر امن و عامہ برقرار رکھنے کے اداروں اور ملک کی اشرافیہ اور بیورو کریٹ میں ان کی گنتی نہ ہونے کے برابر ہے یہ بھلا ملک کس طرح چلا سکتے ہیں اس شیطانی سوچ کے ذہن میں آتے ہی بیلٹ پیپر پر موجود نشان گڈ مڈ ہونے لگ جاتے ہیں اور پھر یہی لوگ کبھی تیر اور تلوار پر مہر لگا کر اپنے آپ کو مجروح اور کبھی شیر کو کچھار سے نکال کر اسے میدان میں لے آتے اور وقت خاص تک خود کو اس کی دھاڑ سے بچنے کے لیے محصور کر لیتے ہیں اور کبھی بلے پر مہر لگا کر اس کی ہٹ سے بچنے کی مسلسل کوششوں میں لگے رہتے ہیں اس سے زیادہ ہماری کم بختی اور کیا ہوگی پانچ سال جن سابقہ حکمرانوں کے کرتوت پر ہم انہیں لعن طعن اور بد دعائیں دیتے ہیں ایک جھوٹے نعرے اور ان کے جھوٹے وعدوں کا اعتبار کر کے اگلے پانچ سال کے لیے انہیں پھر اپنا حکمران منتخب کر لیتے ہیں۔

ایک قانون ایسی ان تمام جماعتوں کے لیے بھی بننا چاہیے جن کے پانچ تا دس فی صد افراد پر کوئی جرم ثابت ہو جائے تو وہ نا اہل قرار دی جائیں ایک قانون یہ بھی بننا چاہیے کہ جو جماعتیں انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کا دس فی صد نہ لے سکیں ان کی رجسٹریشن منسوخ اور جو جماعت 50 فی صد ووٹ لے وہی ہماری حکمران جماعت ہو اس طرح جوڑ توڑ، لالچ، دبائو اور ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا اور صحیع معنوں میں عوام کی حکمرانی قائم ہو جائے گی۔