اور اب بلاول اور زرداری کھیل

465

پاکستانی قوم کو قسم قسم کے ڈراموں میں الجھا کر لوٹ مار کا سلسلہ تو پرانا تھا اس میں جدت آرہی ہے ۔ ڈرامے بدل رہے ہیں۔ قوم چھوٹی برائی بڑی برائی، چور چور پھر تبدیلی تبدیلی کے کھیل دیکھتی رہی۔ ہر ایک نے بزعم خود ملک کو بحران میں سنبھالا اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کا دعویٰ کیا لیکن سابق حکمران کو ساری برائیوں کا ذمے دار قرار دینے کا ڈراما کرنے میں سب کے درمیان اتفاق تھا۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پی پی کو اور پی ڈی ایم اسے الزام دیتی تھی۔ پی ڈی ایم حکومت کے خاتمے کے بعد 16 ماہ کی ذمے داری پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے پر ڈالنے لگے لیکن نیا ڈراما زرداری اور بلاول کھیل شروع کیا گیا ہے ۔ اخبارات کی شہ سرخیاں ایسے لگائی گئی ہیں جیسے دو ملکوں میں جنگ ہونے والی ہے ۔ طبل جنگ بج گیا ہے اور اب پیپلز پارٹی میں پھوٹ پڑنے والی ہے ۔ اخبارات کے انداز سے لگ رہا ہے کہ یہ خبریں لگی نہیں لگوائی جارہی ہیں، اچانک پیپلز پارٹی میں چیئرمین اور شریک چیئرمین میں الفاظ کی جنگ شروع ہوگئی۔ ایک کا بیان عوام کے لیے دوسرے کا ریاست کے لیے لگ رہا ہے لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے ۔ ایسا بالکل نہیں ہے ، پیپلز پارٹی سیاسی طور پر گزشتہ 16 ماہ کی غلطیوں کا بار اٹھانے کے بجائے اپنا چہرہ دھونے کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کررہی ہے جس سے ایسا محسوس ہو کہ اس پارٹی میں کوئی اختلاف ہے اور کوئی بڑا تنازعہ کھڑا ہونے والا ہے ۔ حالانکہ پارٹی کی روایات کو دیکھیں تو صدر پاکستان کے ایک غیر موثر منصب والے زڑداری کا معاملات پر حد سے زیادہ کنٹرول یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ پیپلز پارٹی ان کی آنکھوں کے اشارے پر چلتی ہے ۔ بلاول تو نوآموز ہیں سیاستدان تو ابھی بنے ہی نہیں، اس پارٹی کے بڑے بڑے شاطر رہنما بھی زرداری صاحب کی سیاسی چالوں کے معترف ہیں اور جنرل کیانی بھی ان سے پریشان تھے ۔ ایسے لیڈر کے مقابلے میں کل کا بچہ کیوں کر کھڑا ہوگا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے عوام یہ تو بھول ہی جائیں کہ کوئہ پھوٹ پڑے گی ، پی ڈی ایم کی ہنڈیا کے بڑے شریک یہی بلاول اور زرداری صاحبان تھے چونکہ ساجھے کی ہنڈیا پہلے ہی چوراہے پر پھوٹ چکی ہے ۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی چل رہی ہے اور جب انتخابات ہوں گے اس وقت تک مسلم لیگ تنہا ہوگی اور پیپلز پارٹی پاکستان کی محبت کا راگ الاپ الاپ کر اپنا جتھہ مضبوط کرچکی ہوگی۔ دونوں کا تنازع محض ظاہری ہے ورنہ پارٹی کے اندر کے لوگ اور جو لوگ پارٹی کو جانتے ہیں انہیں پتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کررہے بلکہ عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں۔ پوری پارٹی کو معلوم ہے کہ کون کس کو کیا بنارہا ہے اور کب کس کی ماننی ہے ۔ بلاول اسے یوں بیان کررہے ہیں کہ پارٹی کا پابند ہوں اور گھر کے معاملے والد کا پابندہوں۔ حالانکہ اس پارٹی میں گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے آصف زرداری صاحب کا آنکھ کا اشارہ بھی پارٹی پالیسی ہوتا ہے ۔ جہاں تک بلاول کے گھر کے معاملات میں والد کی اتباع کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں اگر بے نظیر ہوتیں تو وہ زیادہ بہتر تبصرہ کرسکتی تھیں۔ اس ظاہری اختلاف رائے کو سیاسی تجزیہ نگار سیاسی شعبدہ بازی قرار دے رہے ہیں اور ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دے رہے ہیں۔ پی پی، مسلم لیگ اختلاف اور پی پی میں باپ بیٹے کا مختلف بیانات دینا صرف اس وجہ سے ہے کہ قوم اب اپنے خلاف ہونے والے سارے اقدامات کے ذمے داروں کو پہچان چکی ہے اور اسے اب یہ بے نقاب نظر آرہے ہیں۔ انہیں اپنا چہرہ چھپانا ہے اس لیے یہ سارے ڈرامے کیے جارہے ہیں۔ قوم انہیں بے نقاب تو دیکھ چکی لیکن اب اپنے اصل ہمدردوں کو تو پہچانیں اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈالیں۔