کینسر وبا کی طرح پھیل رہا ہے

430

کینسر ایک تباہ کن بیماری ہے جو وطن ِ عزیز سمیت دنیا بھر میں تیزی سے وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ یہ جدید طرزِ زندگی کا ایک بھیانک تحفہ ہے اور اب نوجوانوں پر اس کے اثرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ ایک تحقیق کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے 30 سال میں کینسر کے تقریباً 80 فی صد کیسز 50 سال سے کم عمر کے لوگوں میں سامنے آئے ہیں۔ ڈیٹا کے تجزیے سے اخذ کیے گئے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2030ء تک نوجوانوں میں کینسر کے کیسز کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ شائع ہونے والی تحقیق میں 1990ء سے 2019ء تک دنیا بھر میں کینسر کے کیسز کا جائزہ لیا گیا، جب کہ ہم اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں کہ کینسر کے مریضوں میں خاصی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ہر شخص کا کوئی نہ کوئی جاننے والا اس بیماری میں مبتلا ہورہا ہے۔ روایتی طور پر کینسر کا تعلق بڑی عمر کے گروپوں کے ساتھ رہا ہے، لیکن بدلتے ہوئے منظرنامے میں اس بیماری سے متاثرہ آبادی میں ایک پریشان کن تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ بریسٹ کینسر اس بیماری کی سب سے عام قسم ہے جو عالمی سطح پر ہر ایک لاکھ میں سے 13.7فی صد افراد کو متاثر کررہی ہے۔ اسی طرح سانس کی نالی اور مثانے کے کینسر کے کیسز کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دنیا میں 2019ء میں کینسر کے 50 سال سے کم عمر ایک لاکھ 6 ہزار مریض ہلاک ہوئے، یہ تعداد 1990ء کے مقابلے میں 27 فی صد زیادہ تھی۔ اور آج 2023ء میں اس کی شرح کیا ہوگی، اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس رجحان کے پس ِ پردہ اسباب کثیر جہتی ہیں، اور اس میں جو سب سے پہلی چیز سامنے آتی ہے وہ طرزِ زندگی ہے۔ غیر صحت بخش غذا کا انتخاب، ماحولیاتی زہریلے مادوں کا بڑھتا پھیلائو، تمباکو نوشی، مٹاپا، محدود جسمانی سرگرمی اور ناکافی غذائیت مل کر نوجوانوں میں کینسر کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مٹاپے کا شکار افراد اور زیادہ وزن والی خواتین میں اس جان لیوا مرض کا خطرہ بہت زیاد ہوتا ہے۔ پاکستان میں کینسر کے صرف 20 فی صد مریضوں کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں ہوتی ہے، جب کہ یہ مرض قابل ِ علاج ہے۔ پاکستان میں کینسر کی تشخیص اور علاج تک رسائی محدود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کینسر کے علاج کے لیے صرف چند اسپتال ہیں، اور یہ اسپتال بھی بنیادی طور پر بڑے شہروں میں واقع ہیں۔ کینسر کے علاج کی لاگت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ بہت سے لوگ کیموتھراپی، ریڈی ایشن تھراپی کی زیادہ قیمت برداشت نہیں کر سکتے۔
حکومت ِ پاکستان نے کینسر کی وبا سے نمٹنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، جن میںبڑے شہروں میں کینسر کے علاج کے مراکز کا قیام بھی شامل ہے۔ لیکن یہ اقدامات بہت زیادہ قابل ِ تحسین نہیں ہیں۔ اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فوری طور پر بیماری کا جلد پتا لگانے اور علاج کی خدمات تک رسائی میں اضافہ کرنے کے ساتھ کینسر کے علاج کی لاگت کو کم کرنا ہوگا۔ کینسر سے بچائو اور جلد تشخیص کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہوگی۔ اسکولوں، کالجوں، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے نوجوانوں کو بتانا چاہیے تاکہ انہیں بیماری کا جلد پتا لگانے اور صحت مند طرزِ عمل اپنانے کی اہمیت سے آگاہ کیا جا سکے۔ اور یہ بیداری مہم ریاست و حکومت کی طرف سے صرف اشتہاروں میں نمایاں نہ ہو، بلکہ اس بیماری کی جو بنیادی وجوہات ہیں اور اس میں حکومتوں کے کرنے کا جو کام ہے وہ بھی کرنا ہوگا۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کینسر ایک سنگین بیماری ضرور ہے، لیکن یہ اب زندگی سے مایوسی یا موت کی سزا کا علان نہیں ہے۔ جلد پتا لگانے اور علاج کے ساتھ بہت سے لوگ کینسر سے ٹھیک ہوسکتے ہیں یا طویل اور نتیجہ خیزبہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ نوجوانوں میں کینسر کا بڑھتا ہوا پھیلائو عالمی سطح پر صحت کا بحران نظرآتا ہے جوترقی یافتہ ممالک کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے علاج کو ہر ایک کے لیے آسان بنانے کے اقدامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یہ حکومت ِ وقت کے ساتھ نجی اسپتالوں کے لیے بھی سوچنے کا عمل ہے۔ جہاں اچھا علاج موجود ہے وہاں اس کو ممکن حدتک سستا رکھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بعض کاروباری ذہن رکھنے والے ڈاکٹر اور اسپتال اضافی آمدنی بنانے کے چکر میں پڑے ہوئے، اس میں بڑے بڑے اسپتال اور ڈاکٹر شامل ہیں۔ حکومت کو دیگر اقدامات کے ساتھ ان اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو بغیر تنگ کیے میرٹ کے ساتھ نظر میں رکھنے کی بھی ضرورت ہے، اس سے یقینا کینسر کے علاج کی شرح اور مریضوں کی بقا کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔