نگراں وزیراعظم کا دعویٰ

519

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ 3 سے 4 ماہ میں انتخابات منعقد ہوجائیں گے۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے تاجر برادری کو اعتماد میں لے رہے ہیں۔ اس دعوے کے باوجود پاکستان کی سیاسی فضا میں ابہام بڑھتا جارہا ہے۔ اگر نگراں حکومت آئین کے تحت 3 ماہ میں نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے غیر جانبدار چیت میں قائم کی گئی ہے تو ان کا یہ دعویٰ کوئی وزن نہیں رکھتا کہ وہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اقدام کریں گے۔ اس لیے کہ نگراں حکومت کا فرض ہے کہ وہ انتخابات کرائے اور نئی منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کردے۔ نگراں حکومت کے تقرر کی روایت بھی اسی لیے ڈالی گئی کہ انتخابات اور دھاندلی سے پاک ہیں۔ کیونکہ اول دن سے پاکستان کے انتخابی نظام پر اعتماد قائم نہیں ہوسکا۔ اس کے باوجود اتفاق رائے موجود ہے کہ امور مملکت منتخب پارلیمان کے ذریعے چلائے جائٰں گے۔ اس اصول کی پامالی کا تماشا 1958ء سے آج تک دیکھ رہے ہیں جبکہ ان دس برسوں میں انگریزی سامراج کی وارث سول اور فوجی بیوروکریسی نے عملاً اقتدار پاکستان کے منتخب نمائندوں کو نہیں دیا۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے جو دستور منظور کیا تھا اسے ہی ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل نے منسوخ کردیا۔ اس دن سے پاکستان میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ایک دن بھی قائم نہ رہ سکی، گزشتہ برسوں میں تو آئین کو کھلونا بنادیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو بھی یقین نہٰں ہے کہ انتخابات کا انعقاد اپنی آئینی مدت میں ہوجائے گا۔ عوام کی صورت حال یہ ہے کہ معاشی تباہی کی وجہ سے لوگ انتخابات کا انتظار بھی نہیں کررہے ہیں۔ آزاد کشمیر سے لے کر کراچی تک احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اس بات کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ڈالر اور پٹرول 300 روپے سے تجاوز کر جائیں گے۔ اس تباہی کی رفتار میں تیزی گزشتہ دو برسوں میں آئی ہے، اس کے بہت سے اسباب کے علاوہ مرکزی سبب آئی ایم ایف سے کیا جانے والا معاہدہ ہے جس کی نگرانی امریکا کرتا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں کی وجہ سے ملک بھر میں چلنے والی احتجاجی مہم کی لہر صرف ایک علامت ہے، سوال یہ ہے کہ سابق حکومت جو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برسراقتدار آئی تھی اس نے دعویٰ کیا تھا اور بجا دعویٰ کیا تھا کہ مہنگائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے سابق وزیراعظم عمران خان حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہے لیکن ’’رجیم چینج‘‘ کے بعد آنے والی حکومت کے دور میں تو تباہی کی رفتار تیز ہوگئی، حالاں کہ اس وقت کے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے قوم کو خوشخبری سنائی تھی کہ ڈالر کی قیمت کم ہوگئی ہے۔ جو 300 روپے سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس کا سبب کوئی بتانے والا نہیں ہے۔ ہر شعبہ بدعنوانی کی گندگی سے لتھڑا ہوا ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورت کی کوئی شے نہیں ہے جس کی قیمت میں ناقابل برداشت اضافہ نہ ہورہا ہو، اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت نہیں ہے کہ مہنگائی کی رفتار میں رکاوٹ آجائے گی اس کے باوجود درآمد شدہ وزیر خزانہ کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ بری فوج کے سربراہ نے کراچی اور لاہور کے تاجروں سے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ان ملاقاتوں میں کی گئی گفتگو کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکری قیادت نے یہ ذمے داری بھی اپنے ذمے لے لی ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کریں گے۔ جس کی بنیاد پر حکومتوں کے ہرکارے ایک بار پھر اس مشن پر لگ گئے ہیں کہ فکر نہ کرو ملک میں جلد ہی خوشحالی آجائے گی۔ حکومت کی جانب سے جو دعوے کیے گئے ہیں حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور قطر پاکستان میں اتنی سرمایہ کاری کریں گے کہ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اگر پاکستان میں اتنے مواقعے موجود تھے تو اب تک سرمایہ کاری کیوں نہیں کی گئی۔ خبریں دی گئی ہیں کہ آرمی چیف سے ملنے والے تاجر و صنعتکار بہت مطمئن ہوگئے ہیں لیکن پورے ملک میں عام تاجر اور صنعتکار اپنی احتجاجی تحریک کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، سیاسی قیادت تو اس موقع پر جلاوطن ہوگئی ہے، حکومت اور اس کے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ریاستی طاقت کے بل پر عوام کی آواز کو کچل دیں گے جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ ملک کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ نہایت ذمے داری کے ساتھ سب کو مل کر اس بحرانی کیفیت سے نکلنا ہوگا ورنہ جس طرف ملک کے حالات لے جارہے ہیں یہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔