کہیں یہ سقوط ڈھاکا کے وقت کی تسلیاں تو نہیں

613

وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ حکمران روز عوام کو تسلیاں دے رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ حکمرانوں کی تسلیاں جھوٹی ہیں یہ لوگ آئی ایم ایف کی غلامی سے سرتابی کی جرأت نہیں کرسکتے۔ خبر ہے کہ آئی ایم ایف نے بجلی کا نامعلوم ریلیف پیکیج مسترد کردیا ہے۔ حکومت کا ہر شعبہ جھوٹ بول رہا ہے، حالات بدلیں گے، سرمایہ کاری ہوگی، بجلی چوری روکیں گے، ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے۔ وزیراعظم انوار کاکڑ نے کہا ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف صوبوں اور قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ مل کر فوری کارروائی کی جائے، کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ انہوں نے یقین دلایا ہے کہ گردشی قرضہ کم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ وزیر توانائی نے تھوڑا بہت سچ بولا ہے وہ بھی الزام ڈالر اور پٹرول پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی قیمت میں کمی تک بجلی سستی ہونے کا امکان نہیں۔ حالاں کہ ڈالر اور پٹرول سستا کرنا بھی حکومت کا کام ہے جس کے لیے آقا کی اجازت ضروری ہے، یعنی ہری جھنڈی دکھا دی۔ پھر خبر جاری کی گئی ہے کہ آئی ایم ایف نے مالیاتی گنجائش پوری کرنے کا منصوبہ مانگ لیا اور پاکستان نے مالیاتی ٹیرف اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ملتوی کرنے کی درخواست کردی۔ کوئی پاکستانی ادارہ، وزیر یا نگراں یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے آئی ایم ایف کی شرائط پڑھی ہیں یا دیکھی ہیں، قوم تو آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدوں سے بھی لاعلم رہتی ہے اور ٹی ٹی پی سے ہونے والوں سے بھی اسے تو خبر ملتی ہے کہ آئی ایم ایف نے یقین دلا دیا۔ آئی ایم ایف نے مسترد کردیا۔ پاکستان نے درخواست کردی اور پاکستان کے رابطے ہیں۔ یہ سب اس وقت تک جھوٹ ہیں جب تک قوم کے سامنے کاغذ نہیں آجاتے کہ کیا معاہدے ہوئے ہیں۔ اس وقت تک کسی سوال اور کسی جواب پر یقین نہیں۔ یہ جو پاکستان میں عوام سے کہا جاتا ہے کہ حکومت فلاں کام کررہی ہے، اس کے بعد قوم کے دلدر دور ہوجائیں گے، قوم خوشحال ہوجائے گی، ملک ترقی کرے گا، فلاں فلاں کام کریں گے، فلاں منصوبہ ہے، فلاں منصوبہ گیم چینجر ہوگا لیکن قوم کو ان کا تجزیہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جب تک تجزیے کا وقت آتا ہے حکومت بدل چکی ہوتی ہے، لوگ سوال کررہے ہوتے ہیں کہ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔ کیوں کہ نئے دستانے پہنے ہوئے پرانے والے نئے نام سے آجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر قوم کو تجزیہ کرنا ہے تو اس کا کرے جو حکومت کررہی ہے۔ اور کر یہ رہی ہے کہ ڈالر کو اڑا دیا ہے پٹرول کو آگ لگادی ہے، ہر چیز مہنگی کردی گئی ہے۔ گندم اور چینی کا بحران ہے بلکہ ہر روز نیا بحران ہے۔ تجزیہ کرنا ہے تو اقدامات کا کریں وعدوں پر تو آج تک عمل نہیں ہوا۔ تقریریں تو بھٹو نے بھی بڑی اچھی کی تھیں، جنرل ضیا الحق، جنرل مشرف اور عمران خان نے بھی بڑی اچھی اچھی کی تھیں لیکن عمل تو ان سب کا یہی تھا جو آج ہورہا ہے۔ اب تو قوم اس مخمصے سے بھی نکل گئی ہے کہ چھوٹی برائی قبول کرلی جائے کیونکہ ہر چھوٹی برائی کہلائے جانے والے نے خود کو بڑی برائی سے زیادہ بڑی برائی ثابت کردیا ہے۔ ایک ناکام کو ہٹا کر دوسرے کو لایا جاتا ہے وہ بھی ناکام تیسرا لایا گیا وہ بھی ناکام، اب تینوں ناکام پارٹیوں کا مقابلہ ہے۔ فی الحال دو فوج کی حمایت کا تاثر دے رہی ہیں اور ایک مخالفت کا لیکن ان میں سے کون ہے جو موقع ملتے ہی سودے بازی نہیں کرے گا۔ موقع ملنا تو الگ رہا یہ موقع نکالتے ہیں۔ اور جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں وہ گزشتہ چالیس سال سے کہہ رہے ہیں۔ پی پی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سب کی باریاں لگ چکیں۔ انہیں جو کہنا تھا وہ کہہ چکے اب نگراں جو کہہ رہے ہیں ان پر کیسے یقین کیا جائے، جب پانچ سال کے لیے آنے والے کہتے ہی رہ گئے تو نگراں تو چند ماہ کے مہمان ہیں۔ ہر کمزور حکومت کے دور میں ایسا ہوتا ہے کہ اچانک آرمی چیف آگے بڑھتے ہیں۔ دوست ملکوں کا دورہ کرتے ہیں، سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ماہرین کے اجلاس کرتے ہیں، تاجروں، صنعت کاروں، علما مشائخ کو جمع کرتے ہیں۔ مشترکہ دشمن بھارت کے بارے میں تقریریں ہوتی ہیں اور نامعلوم دشمن سے لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ جنرل پرویز بھی یہی کرتے رہے، جنرل راحیل، جنرل باجوہ بھی یہی کرتے رہے۔ اب پھر جنرل عاصم منیر نے تاجروں سے ملاقات کرکے اچھی گفتگو کی ہے۔ لوگوں میں ایسی باتوں سے امیدیں بندھ جاتی ہیں لیکن عمران خان کی گفتگو یاد کریں پاکستانی معیشت پرواز کررہی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی خطے کے ممالک سے ملاقاتیں یاد کریں، جنرل باجوہ کی ملاقاتیں یاد کریں، یہ سب ملک کی بہتری کے لیے تھیں، عمران خان کی معیشت پرواز کرتی ہوئی افغانستان اور بنگلادیش چلی گئی۔ پی ڈی ایم کی ترقی کرتی ہوئی معیشت ترقی کرکے سری لنکا اور افریقی ممالک چلی گئی۔ ڈالر، پٹرول، چینی سب مہنگے ہوگئے، سب کو صاف نظر آرہا ہے نااہلی سے زیادہ بے ایمانی کا دخل ہے لیکن وزیراعظم کاکڑ روز اطلاع دے رہے ہیں کہ معیشت کو مستحکم کررہے ہیں۔ یہ طفل تسلیاں سقوط ڈھاکا کے وقت بھی دی گئی تھیں۔ ایک نے کہا کہ بھارتی ٹینک میرے سینے پر چڑھ کر پاکستان میں داخل ہوں گے لیکن اس سے پہلے کہ بھارتی ٹینک آتے جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔ سقوط کے دن تک امریکا کا ساتواں بحری بیڑا آرہا ہے آرہا ہے کی خبریں آتی رہیں۔ تمام خبریں ایسی ہی تھیں کہ بھارتی فوج کے دانت کھٹے کردیے گئے ہیں لیکن 16 دسمبر کو قوم نے خبر سنی کہ فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اب روز سنتے ہیں کہ ملک تباہ ہورہا ہے، ڈیفالٹ ہورہا ہے، لیکن حکمراں طبقہ روز یہی تسلی دیتا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا، کچھ نہیں ہورہا، سب ٹھیک ہے۔ قوم میں ایک خوف پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں یہ تسلیاں سقوط ڈھاکا والی نہ نکلیں۔ پھر بعد میں الزام تراشی کا کھیل ہی باقی رہ جائے گا۔