عورت معاشی جدوجہد میں مرد سے آگے

566

ایک بڑی کمپنی کو منیجر کی پوسٹ کے لیے کسی انتہائی قابل شخص کی تلاش تھی مگر کوئی امیدوار یہ نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا، اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کمپنی کا مالک انٹرویو پینل میں خود بھی بیٹھتا تھا اور جب پینل کے دیگر ارکان اپنے سوالات مکمل کر لیتے تو مالک آخر میں ہر امیدوار سے یہ سوال ضرور پوچھتا کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہوتی ہے۔ جواب آتے مگر کمپنی کا مالک کسی بھی طرح مطمئن نہیں ہو پاتا جبکہ اب تک تمام امیدوار بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ایک روز ایک سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور عام سے حلیے والا نوجوان انٹرویو دینے آ گیا، اسے دیکھ کر پینل کے ارکان طنزیہ انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں اپ ٹو ڈیٹ قسم کے لوگ یہ انٹرویو پاس نہیں کر پائے تو یہ دیسی سا انسان کہاں سلیکٹ ہو پائے گا۔

جب پینل کے ارکان اپنے سوالات کر چکے تو کمپنی کے مالک نے اس سے بھی آخر میں یہ سوال کیا ایک سب سے اچھے منیجر کی اعلیٰ صفت بتاؤ۔ نوجوان نے سوال سن کر کچھ دیر کے لیے سر جھکایا اور پھر کمپنی مالک کی طرف دیکھ کر پورے اعتماد سے مسکرا کرکہا، سر! اچھا منیجر وہی ہے جو کمپنی کے معاملات کو کمپنی کے مالک سے بھی زیادہ بہتر جانتا اور سمجھتا ہو اور جس کے ہوتے ہوئے مالک برائے نام مالک کہلائے۔ یہ عجیب و غریب جواب سن کر پینل ارکان چونک گئے، وہ نوجوان کی اس بدتمیزی اور گستاخانہ لہجے پر تلملا اٹھے، تاہم کمپنی مالک نے سب کو خاموش رہنے اور انتظار کرنے کو کہا۔ پھر مسکرا کر نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا، بالکل ٹھیک جواب دیا آپ نے، لیکن یہ بات آپ نے کس سے سیکھی، پینل ارکان ایک دوسرے کے منہ دیکھنے لگے۔ نوجوان نے بد دستور خود اعتمادی کے ساتھ مسکراتے ہوئے جواب دیا، سر! اپنے گھر سے اور اپنے والدین سے۔ گھر کا سربراہ بے شک والد ہی ہوتا ہے لیکن گھر کو چلانا کسی منیجر کا کام ہوتا ہے۔ کس کے کپڑے کہاں ٹنگے ہیں، کس کے جوتے کہاں رکھے ہیں، کس کی کتابیں کہاں دھری ہیں، کس کے کھلونے کہاں پڑے ہیں، کپڑے گندے ہو گئے تو کون دھوئے گا، استری کر کے کون دے گا، سب کی من پسند کا کھانا بنانا، بنا کے سامنے رکھنا، پھر برتن دھونا کس کی ذمے داری ہے، پھر گھر بھر کی صفائی، جھاڑ پونچھ، فرش کی دھلائی، رات سب کو سلاکر پھر سونا، صبح سب سے پہلے جاگ کر سب کو جگانا، ایک ایک کو کھلا پلاکر تیار کر کے اسکول بھیجنا، کپڑے پھٹ جائیں تو پیوند لگانا، بٹن ٹوٹ جائیں تو ٹانکا لگانا، بیمار پڑ جاتے تو پرہیز والا کھانا اور دوائی دینا، عید شادیوں، سیر سپاٹے، رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لیے سب کی تیاری، گھر میں دعوت پر درجن بھر مہمانوں کا کھانا بنانا، سر میں تیل ڈالنا، جوئیں نکالنا، بخار میں ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھنا، مالش کرنا، کبھی کھیر، کبھی حلوہ، کبھی گجریلا کبھی کھچڑی، کبھی زردہ، کبھی شربت، کبھی ابلے ہوئے انڈے، اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ یہ سب مینج کرنے والی میری امی تھیں، وہ شاندار منیجر تھیں۔ تبھی ہم اکثر ابو کو چھیڑتے ہوئے کہا کرتے تھے، آپ تو بس برائے نام ہی گھر کے مالک ہیں۔

کمپنی مالک نے تحسین آمیز نگاہوں سے نوجوان کو دیکھا اور پھر پینل سے مخاطب ہوکرکہا آپ سب نے اس نوجوان کا جواب سن کر اسے ڈانٹ دیا تھا لیکن اب جبکہ اس نے اپنے جواب کی تشریح کی ہے تو مجھے امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس کے جواب کے پیچھے اس کا مشاہدہ بھی ہے اور عمر بھر کا تجربہ بھی اور ایک ٹھوس نظریہ بھی۔ مجھے بھی ایسے ہی منیجر چاہیے جس کے ہوتے ہوئے میں برائے نام مالک بن جاؤں۔

مغربی معاشرے اور آج کل کے ماڈرن تہذیب کے پجاریوں نے اس کوشش کو بہت زیادہ تیزتر کردیا ہے کہ جس طرح بھی ہو عورت کو گھر سے باہر نکالا جائے۔ اسے باہر نکالنے کے لیے اس کے دل و دماغ میں یہ بات شدت سے نقش کی جارہی ہے کہ اسے مردوں کی طرح معاشی جدوجہد میں شریک ہونا چاہیے۔ دیکھا جائے تو بات دل کو چھو لینے والی ہے۔ خواتین ہماری آبادی کا نصف سے بھی زیادہ ہیں۔ ان کے دماغ میں یہ بات بٹھائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگیں تو ملک میں خوشحالی آ سکتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ماں کے جس کردار کا اوپر کی تحریر میں ذکر کیا گیا ہے کیا وہ کردار اس بات کا گواہ نہیں کہ عورت ایک مرد کے مقابلے میں کہیں زیادہ معاشی جدوجہد میں شریک ہے؟۔ جتنے کاموں کا ذکر اس حوالے سے ہوا ہے جسے ایک ماں انجام دیتی ہے، کیا وہ کام نہیں؟۔ یقینا وہ سارے کام نہایت اہم ہیں جس کو اگر ماں انجام نہیں دے گی تب بھی کوئی نہ کوئی تو ان کاموں کو انجام دے گا۔ جن گھروں میں یہ سارے کام ماں کی شکل میں ایک عورت انجام دیتی ہے اس گھر کے ماحول اور جس میں یا تو کوئی غیر عورت یا مرد انجام دیتا ہے، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔ خاندان کی بہترین پر ورش، تربیت اور کردار سازی جس طرح کوئی ماں کر سکتی ہے کوئی غیر مرد یا ’’ماسیاں‘‘ کیسے انجام دے سکتی ہیں۔ ہمارے حالات کیسے بھی سہی، لیکن آج بھی گھر گھر ہیں مکان یا سرائے نہیں۔ اگر پھر بھی کسی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئے تو وہ اپنے خاندانی نظام کا مغربی معاشروں سے تجزیہ کر لے کہ کیا مغربی معاشرے میں دکھائی دینے والے گھر ہیں یا مکانات۔

اپنے گھروں کو گھر رہنے دیں انہیں مکانات یا سرائے نہ بننے دیں اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ ہمارے معاشرے کی ہر عورت مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معاشی جدوجہد میں شریک ہے کیونکہ ایک مرد صرف کماتا ہے لیکن اس کی کمائی کو ٹھیک ٹھیک جگہ خرچ کرنے، گھر کو سنبھالنے اور بچوں کی تربیت کرنے کا فن صرف عورت ہی کو آتا ہے۔