کراچی کے سوداگر

795

کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ پاکستان کی تعمیر وترقی میں اس شہر کا بنیادی اور کلیدی کردار ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے ملک بھر سے محنت کش طبقہ اپنے روزگار کے لیے کراچی آتا ہے۔ ملک کے چپے چپے سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے آنے کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آبادی کے لحاظ سے حکومت اس میگا سٹی کو وہ وسائل اور سہولتیں فراہم کرتی جس سے اس شہر کے مسائل میں کمی واقع ہوتی لیکن بدقسمتی سے روز اول سے پاکستان کے حکمرانوں نے اس شہر کو ہمیشہ نظر انداز ہی کیا ہے، اس شہر کے بنیادی مسائل حل کرنے کی کبھی کسی نے سنجیدہ کوشش نہیںکی بلکہ اس کو نوچ کر کھایا گیا اور برباد کیا گیا۔ کراچی شہر پر سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے شب خوں مارا اور کراچی سے دارالحکومت ختم کر کے اسے اسلام آباد منتقل کیا گیا اور اس دن سے کراچی کی بربادی کا آغاز ہوگیا تھا اور پھر پیپلز پارٹی کی ذوالفقارعلی بھٹو حکومت نے ظالمانہ جابرانہ کوٹا سسٹم رائج کر کے کراچی کے باسیوں کو تو دیوار ہی سے لگا دیا تھا۔ صوبہ سندھ میں اس وقت بھی پیپلز پارٹی کی حکومت گزشتہ پندرہ برسوں سے حکمراں پارٹی رہی ہے اور تمام سیاہ سفید کی مالک تھی۔ پیپلز پارٹی کی پالیسوں سے صاف محسوس ہوتا رہا کہ پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کہ کراچی کی اصل آبادی سامنے آئے وہ جعل سازی کے ذریعے ہمیشہ کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کرتی ہے، جس سے کراچی کو اس کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ کراچی کی آبادی اس وقت تقریباً ساڑھے تین کروڑ کے قریب ہے جبکہ 2017 میںکراچی کی آبادی تقریباً 3کروڑ کے قریب تھی لیکن ان وڈیروں جاگیرداروں اور اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کی گنتی کم کرکے کراچی کی حقیقی نمائندگی، وسائل اور ملازمتوںکے جائز اور قانونی حق سے محروم کر کے ان کے حق پر ڈاکا ڈالا۔

2023 کی مردم شماری میں بھی اہل کراچی کی پیٹھ پر چھرا گھونپا گیا اور ان کی حق تلفی کی گئی۔ کراچی کی موجودہ آبادی اور گنتی ساڑھے تین کروڑکی بنتی ہے۔ اگر اس بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میںکراچی کو نمائندگی ملتی اور اسی حساب سے پی ایف سی ایوارڈ میں حصہ ملتا تو کراچی کے عوام کے بنیادی مسائل حل ہوسکتے تھے۔ اگر کراچی کی آبادی کو درست شمار کیا جائے تو سندھ اسمبلی میں کراچی کی نمائندگی بڑھ جائے گی جس کے نتیجے میں وزیراعلیٰ بھی کراچی سے باآسانی منتخب ہوجائے گا۔ لیکن افسوس کہ کراچی کے شہریوں کے نام ونہاد ترجمان اور ایم کیو ایم کی قیادت ان ظالم جابر وڈیروں جاگیرداروں کی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ پندرہ سال میں سندھ کے باسیوںکو تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کی کوئی بہتر سہولت فراہم نہیںکی گئی۔ دوہزاربسوںکے بجائے دو سو بسیں چلا کر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ سرکلر ریلوے کے نام پر اربوں روپے اڑا دیے گئے لیکن عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سیلاب زدگان کے فنڈز اور بیرونی امداد بھی پیپلز پارٹی کی نااہلی اور کرپشن کی نظر ہوگئی۔ اگر نادرا کے فراہم کردہ ڈیٹا اور بجلی گیس کے میٹر کی تعداد کی بنیاد پر ہی دیکھا جائے تو ثابت ہوجائے گا کہ کراچی کی اصل اور حقیقی آبادی کو جان بوجھ کرکم کیا گیا ہے۔ نادرا کے مطابق ایک کروڑ 91لاکھ افراد ایسے کراچی میں رہائش پزید ہیں جو مستقل پتے کی بنیاد پر یہاں موجود ہیں۔ کراچی میں 30.35 سال سے ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کا مستقل پتا ملک کے کسی اور صوبے کا ہے لیکن وہ عارضی پتے کی بنیاد پر یہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح کراچی میں کے الیکٹرک کے ڈومیسٹک میٹرز کی تعداد 37لاکھ جبکہ 23لاکھ گیس کے میٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ بجلی کے ایک میٹر پر اوسطاً 10افراد اور گیس کے ایک میٹر پر 16افراد کی تعداد بنتی ہے۔ تو اگر ان میٹرز کی تعداد کا حساب لگایا جائے تو کراچی کی آبادی کسی طور پر ساڑھے تین کروڑ سے کم نہیں بنتی اور ان حقائق کا واضح مطلب ہے کہ خود قومی اور حکومتی اداروں کے اعدادو شمار 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری میں کراچی کی ظاہرکی گئی آبادی غلط ہے۔

اس ظلم اور جرم میں ایم کیو ایم برابرکی شریک ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کراچی کی آبادی کم کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر کراچی کی آبادی بڑھے گی تو وڈیروں جاگیرداروں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ ستم بالا یہ کہ 2023 کی مردم شماری کے مطابق اب لاہور کی آبادی کراچی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ نئی مردم شماری کے مطابق لاہور کی آبادی دو کروڑ اٹھائیس لاکھ اور کراچی شہر کی آبادی دو کروڑ چار لاکھ ہے۔ اس طرح لاہور کی آبادی کراچی سے 24لاکھ زیادہ ہے۔ حکومت پاکستان لاہور سے جتنا ریونیو وصول کرتی ہے اس سے زیادہ ریونیو کراچی کا ایک علاقہ لالو کھیت سے ادا ہوتا ہے اور پاکستان کے ریونیو کا 70فی صد ادا کرنے والے شہر کو متعصب لوگوں نے پاکستان کا آبادی کا دوسرا شہر بنا کر ایک نیا لطیفہ بنا دیا جس سے پوری دنیا میں پاکستان کا تمسخر اڑ رہا ہے اور ایک انہونی کام کر کے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پوری طرح بے نقاب ہوگئی کہ کراچی کی ترقی اور خوشحالی میں رکائوٹ ڈالنے والی کون کون سی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ اس تمام منصوبے اور کارنامے میں ایم کیو ایم کا کردار انتہائی گھناونا اور بدبودار ہے۔ ایم کیو ایم نے ماضی کی اپنی روایتوں کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر چند وزارتوں، گورنر شپ اور اقتدار میں شرکت کے لیے کراچی کی آبادی کا سودا کیا ہے جو کہ انتہائی شرمناک اور ناقابل معافی ہے۔

اہل کراچی کسی قیمت پر اپنی گنتی کم کرنے کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کریں گے اور کراچی کے ان سوداگروں کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی نے اس ظلم کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی ہے لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آرہا ہے اور تمام جماعتوں کو سانپ سونگھ گیا ہے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اہل کراچی کو بھی اس مرحلے میں اپنے دوست دشمن کی اچھی طرح پہچان ہوچکی ہے۔ یہ بہت اچھا موقع تھا کہ کراچی کی درست مردم شماری ہوجاتی اور اس مردم شماری کی بنیاد پر کراچی کی نشستوں میں ناصرف یہ کہ اضافہ ہوتا بلکہ کراچی سے وزیراعلیٰ بھی باآسانی منتخب ہوجاتا لیکن کراچی کے سوداگروں نے کراچی کا ایک بار بھی پھر سودا کر کے کراچی اور اہل کراچی کو گہری کھائی اور پستی میں دھکیل دیا ہے۔