بھارتی مسلمانوں پر تنگ ہوتی زمین

1519

بھارت کی مسلمان دشمنی عیاں ہے اور یہ تاریخی ہے حالیہ برسوں میں اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، پوری دنیا کے لیے ایک پریشان کن رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ گائے کو انسانی جان سے زیادہ قیمتی سمجھا جانے کی بنیاد پر مسلمانوں کی زندگی تنگ ہوگئی ہے۔ بھارت میں مسلمان اکھنڈ بھارت منصوبے کے تحت مستقل نشانے پر ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، انتہا پسند ہندو گروپ گائے کے تحفظ کے نام پر ذہنی، دماغی، جسمانی تشدد کو منظم انداز میں ایک عرصے سے پوری دنیا کے سامنے انجام دے رہے ہیں۔ نفرت اور عدم برداشت کی یہ لہر ان تمام لوگوں کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے جو انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی پر بہت بات کرتے ہیں لیکن ہندوستان کے معالمے میں بالکل خاموش ہیں، پاکستان میڈیا بھی ہندوستان میں ہونے والے مسلمانوں کی نسل کش مہم پر کچھ دکھانے اور بتانے سے قاصر ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق 2014 سے اگست 2022 کے دوران انتہا پسند ہندو گئو رکشک کے نام پر ساڑھے8 سو مسلمانوں کو شہید کرچکے ہیں۔ صرف 2014 سے 2018 کے درمیان 63 گئو رکشک حملوں میں 44 مسلمان شہید، جبکہ 124 زخمی ہوئے۔ ایک اور میڈیا رپورٹ کے مطابق 2014 سے اگست 2022 تک 206 واقعات میں 850 مسلمانوں کو مودی کے حمایت یافتہ گئو رکشک بریگیڈ کے دہشت گرد ہندوئوں نے شہید کیا۔ ایک خبر پڑھیں جو انڈین ایکسپریس دی گارڈین کی ہے اس کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گئو رکشک بریگیڈوں کی تعداد 5000 سے زائد ہے، 2015 سے 2018 کے درمیان 71 گئو رکشک حملے ہوئے جس میں میڈیا نے صرف 4 رپورٹ کیے۔ رپورٹ کے مطابق 2021 میں ہریانہ حکومت نے سرکاری سطح پر مونو منیسر بجرنگ دَل کے گئو رکشک بریگیڈ کو گئو ماتا کی حفاظت کا ٹاسک سونپا۔ رواں سال 15 فروری میں راجستھان کے ضلع بھرت پور میں 2 مسلمانوں کو اسی گئو رکشک گروہ نے زندہ جلا ڈالا تھا۔ گئو رکشک‘ یعنی گائے کے محافظ کی کہانی 2014 میں مود ی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے باقاعدہ شروع ہوئی اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والی ہندو تنظیموں کے کارکن جگہ جگہ گروپوں میں موجود ہوتے ہیں یہ نظریاتی طور پر وہ تشدد پسند ہندوئیت کے علمبردار ہیں۔ اور اس میں زیادہ تر بے روزگار نوجوان ہوتے ہیں جو جھتے کی صورت میں شاہراہوں، سڑکوں اور مویشی منڈیوں پر پولیس یا سیکورٹی اداروں کی مدد سے ٹرک اور دوسری گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہیں اور گائے کے علاوہ اکثر بکرے اور بھینس وغیرہ لے جانے والوں کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ خبر کے مطابق دہشت پھیلانے کے لیے ہجومی تشدد کی باقاعدہ ویڈیو بنا کر اسے سوشل میڈیا پر پھیلایا جاتا ہے۔ پولیس اکثر حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ متاثرین کے خلاف گائے کی اسمگلنگ اور دوسرے معاملات میں کیس درج کرتی ہے اور ہجومی تشدد کے مرتکبین کے خلاف کارروائی آگے نہیں بڑھ پاتی۔
ان مقامی غنڈوں کے بااثر اور طاقت ور ہونے کی بنیادی وجہ ہے کہ انہیں ریاست پال رہی ہوتی جس طرح ماضی میں کراچی میں ایم کیو ایم کو پالا گیا تھا اور وہ جس کو چاہتے تھے تشدد کا نشانہ بناتے، قتل کرتے، بوری بند لاشیں ملتی تھیں۔ وہاں ان ہندو گروہوں کو مقامی رکن اسمبلی یا رکن پارلیمان اور سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہے یہ اسی طرح ہے جیسے کراچی میں ایم کیو جو کچھ کرتی تھی اور اس پر اسٹیبلشمنٹ یا حکمران جماعت کا ہاتھ تھا وہاں بھی حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق ہونے کے سبب پولیس بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ امریکی ادارہ مذہبی آزادی کا کہنا ہے کہ بھارت میں آزادی سے اب تک 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد چرچ اور دیگر عبادت گاہیں انتہا پسندوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ادارے کے مطابق 6 دسمبر 1992 کو ایودھیہ میں انتہا پسند ہندوئوں نے صدیوں پرانی بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔ امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ 2017 میں انتہا پسند ہندوئوں نے تاج محل پر بھی شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ منی پور میں بھی حالیہ فسادات کے دوران 400 سے زائد گرجا گھر جلائے جا چکے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلت ہندوئوں پر منظم حملے کیے جاتے ہیں۔ امریکی ادارہ مذہبی آزادی کے مطابق وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ اس ضمن کہتی رہی ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گئو رکشک حملوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ یہ حملے الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے ایک بڑے نمونے کا حصہ ہیں۔ ان دہشت گردی کے ریاستی سطح پر اقدامات نے مسلمانوں کے لیے خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے کے ساتھ، مذہبی آزادی اور سماجی ہم آہنگی کے اصولوں کو مجروح کیا عالمی اداروں کے لیے توجہ طلب یہ ہے کہ دہ بات یہ ہے کہ ان گائو رکشک گروپوں کو ریاست سے مبینہ حمایت اور تائید حاصل ہے۔ سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والا بھارت آج انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لگتا ہے ریاست کا نام ہندوستان ہونے کی وجہ سے مودی حکومت اسے صرف ہندوئوں کا ہندوستان دیکھنا چاہتی ہے۔ وہاں اب غیر ہندو، خاص طور پر مسلمان بن کر جینا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں مسلمان ہر عنوان سے نشانے پر ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی طور پر ماضی کے مقابلے میں تیزی سے انہیں بے وقعت اور نفرت انگیز بناکر گن گن اور چن چن کر ان کی شناخت ختم کی جارہی ہے۔ ہندوستان کی صورت حال تصور سے زیادہ خراب ہے۔ اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور ان کو نشانہ بنانے کے ہزاروں واقعات ہیں جو گلی محلے میں رونما ہورہے ہیں۔ مسلمان وہاں کس مشکل اور تکلیف میں ہیں اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ آج بھارت کی سرزمین میں جو کچھ ہورہا ہے دو قومی نظریے کی تصدیق اور پاکستان کے قیام کے جواز کے لیے واضح دلیل ہیں۔ برصغیر میں رہنے والوں کے لیے ہندو ذہن،رویے اور نفرت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری نئی نسل جو آج پروان چڑھ رہی ہے وہ اس حقیقت اور پوری تاریخ سے نابلد ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان کسی عارضی یا وقتی ضرورت کے تحت وجود میں نہیں آیا بلکہ مسلمانوں اور قائد اعظم کی پوری تاریخی جدجہد کا مقصد پہلے ہی دن سے مسلمانوں کے الگ تہذیبی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت تھا۔ بھارت میں نریندر مودی کی ہندو قوم پرست ایک پست اورفسطائی ذہنیت کی عکاس حکومت ہے جس کی وجہ سے مسلمان ایک بار پھر مشکل صورت حال سے گزر رہے ہیں وہاں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کو چلتے پھرتے موت کے گھاٹ اتارنا اور تشدد کا نشانہ بنانا ایک عام سی بات ہے اور یہ سب کچھ ریاست کی سرپر ستی میں ہورہا ہے، جہاں پوری دنیا کے مسلمانوں، اور مسلم حکمرانوں کا اپنا کرار ادا کرنا چاہیے اور اپنے وجود کا ثبوت دینا چاہیے، وہاں دوسری طرف عالمی برادری کو بھی بھارت کے مظالم کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ورنہ خطے کے امن امان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ جب ظلم بڑھ جائے تو رد عمل بھی شدید آتا ہے۔