عام انتخابات کا مخمصہ

1418

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے بعد ان کی نگران وفاقی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے جس میں سولہ وفاقی وزراء، تین مشیر اور چھے معاونین خصوصی شامل کیے گئے ہیں،جلیل عباس جیلانی کو امور خارجہ، شمشاد اختر وزیر خزانہ، سرفراز بگٹی وزیر داخلہ، مرتضیٰ سولنگی وزیر اطلاعات و نشریات، لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید انور علی حیدر وزیر دفاع ہوں گے۔ احمد عرفان اسلم وزیر قانون، خلیل جارج وزیر انسانی حقوق، جمال شاہ وزیر قومی ورثہ و ثقافت، شاہد اشرف تارڑ وزیر مواصلات، گوہر اعجاز وزیر تجارت و ٹیکسٹائل، ندیم جان وزیر قومی صحت، عمر سیف وزیر آئی ٹی، محمد علی وزیر توانائی، انیق احمد وزیر مذہبی امور، سمیع سعید وزیر منصوبہ بندی و ترقی اور مدد علی سندھی وزیر وفاقی تعلیم، امور نوجوان اور بین المذاہب قومی ہم آہنگی بنائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ائر مارشل (ر) فرحت حسین مشیر ہوا بازی، احد چیمہ مشیر اسٹیبلشمنٹ، وقار مسعود مشیر خزانہ ہوں گے۔ چھے معاونین خصوصی میں مشعال حسین ملک انسانی حقوق، جواد سہراب ملک سمندر پار پاکستانی، وائس ایڈمرل (ر) افتخار رائو بحری امور، وصی شاہ سیاحت، ڈاکٹر جہانزیب خان حکومتی امور، سیدہ عارفہ زہرہ خصوصی تعلیم و قومی ہم آہنگی شامل ہیں۔ وزیر مواصلات شاہد اشرف تارڑ نے حلف اٹھانے سے قبل چیئرمین ایف پی ایس سی کے عہدے سے استعفا دے دیا۔ یوں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کا عہدہ ایک بار پھر خالی ہو گیا ہے، ان کی مدت 17 جنوری 2024ء کو مکمل ہونا تھی مگر ان کے استعفے سے ایک بار پھر یہ اہم قومی ادارہ سربراہ سے محروم ہو گیا ہے۔ آئین کی رو سے نگران حکومت کا اہم ترین کام ملک میں صاف، شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنا اور انتخابی عمل کی تکمیل تک ملک کے روز مرہ امور کو چلانا ہے مگر اس وقت جو صورت حال در پیش ہے اس میں محسوس یوں ہو رہا ہے کہ عام انتخابات نگران حکومت کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور اس کی اولین اور سب سے اہم ذمے داری بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ایجنڈے کی تکمیل، اس کی شرائط اور ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے جس کے لیے پی ڈی ایم کی سبک دوش ہونے والی حکومت، نگران حکومت کے اختیارات میں اسمبلی میں باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اضافہ کر کے گئی ہے، یوں بھی نگران کابینہ میں کم از کم دو ارکان ایسے ہیں جو پہلے سے عالمی بینک میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وزیر خزانہ محترمہ شمشاد اختر صاحبہ عالمی بینک کی نائب صدر کی سینئر مشیر رہ چکی ہیں، اس کے علاوہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے مختلف منصوبوں میں اہم مناصب پر کام کا تجربہ رکھتی ہیں ان کے علاوہ وزیر مواصلات و ریلوے شاہد اشرف تارڑ بھی عالمی بینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، تاہم نگران وزیر اعظم نے ان کے حلف اٹھانے کا انتظار کیے بغیر ہی تندہی سے آئی ایم ایف کی ہدایات پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے جس کی نمایاں مثال پہلے سے ناقابل برداشت قیمتوں پر دستیاب پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں سولہ اگست سے بیس روپے تک کا مزید اضافہ ہے جس نے پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پستے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بیس سے تیس فی صد اضافہ کر دیا گیا ہے جب کہ سرکار کے زیر انتظام چلنے والے پاکستان ریلوے نے بھی اپنے کرائے فوری طور پر دس فی صد بڑھا دیے ہیں یوں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پے در پے اضافہ کے اثرات روز مرہ استعمال کی تمام چیزوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں جس کے باعث عوام کی چیخیں دور دور تک سنائی دے رہی ہیں مگر حکومت کو اس کی قطعی کوئی پروا نہیں دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری 2023ء کے گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی جس میں کم و بیش چار ماہ کا عرصہ لگے گا۔ اس لیے آئین میں دی گئی نوے دن کی مدت میں عام انتخابات کا انعقاد تقریباً ناممکن قرار دے دیا گیا یوں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ نگران حکومتیں اپنی آئینی مدت نوے روز کے لیے نہیں بلکہ فی الحال غیر معینہ مدت تک کام کرتی رہیں گی۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پہلے ہی نگران حکومتوں کو اختیارات سنبھالے سات ماہ سے زائد گزر چکے ہیں اور ابھی مزید کب تک یہ حکومتیںکسی آئینی تائید و توثیق کے بغیر اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں گی، کسی کو کچھ معلوم نہیں، الیکشن کمیشن نے جو نظام الاوقات جاری کیا ہے اس کے مطابق پرانی حلقہ بندیاں منجمد کر کے نئی حلقہ بندیوں پر کام کا آغاز کیا جا رہا ہے، صوبائی حکومتوں اور ادارہ شماریات سے معاونت طلب کرتے ہوئے ضروری احکام جاری کیے جا رہے ہیں، اکیس اگست تک ہر صوبے کے لیے حلقہ بندی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی، صوبائی حکومتوں سے ضلع اور تحصیل سے متعلق نقشوں سمیت ضروری دستاویزات کے علاوہ پاکستان ادارہ شماریات سے ضلعی مردم شماری کی رپورٹس ڈیجیٹلائزڈ میپس سرکلز اور بلاکس کی تفصیلات 22 اگست سے لے کر 31 اگست تک اکٹھی کی جائیں گی، حلقہ بندی کمیٹیوں کی یکم سے چار ستمبر تک تربیت ہو گی، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ضلعی سطح پر کوٹے کا تعین 5 ستمبر سے 7 ستمبر تک کیا جائے گا، حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 8 ستمبر سے 7 اکتوبر تک آویزاں رہے گی، حلقہ بندیوں کے لیے ابتدائی تجاویز پر مبنی رپورٹس 9 اکتوبر کو شائع کی جائیں گی، الیکشن کمیشن کے سامنے حلقہ بندیوں کی تجاویز 10 اکتوبر سے لے کر 8 نومبر تک جاری کی جائیں گی، الیکشن کمیشن 10 نومبر سے 9 دسمبر تک اعتراضات سنے گا جب کہ حتمی فہرست 14 دسمبر کو شائع کی جائے گی۔ یوں چار ماہ حلقہ بندیوں میں لگ جائیں گے جس کے بعد ہی انتخابی شیڈول تیار کیا جا سکے گا اور کم از کم ساٹھ دن کا مزید وقت انتخابی عمل کی تکمیل کے لیے درکار ہو گا اور یہ سب اس صورت میں ہے جب کہ تمام کام معمول کے مطابق چلتے رہیں اگر خدانخواستہ کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ الیکشن کمیشن اپنے بتائے ہوئے نظام الاوقات پر عملدرآمد سے قاصر رہا جس کا امکان الیکشن کمیشن اور بعض دیگر اداروں کے اب تک کے طرز عمل کی روشنی میں مسترد نہیں کیا جا سکتا تو انتخابات کو مزید بھی موخر کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے کوئی بھی جواز فراہم کرنا سرکاری دانشوروں اور ماہرین آئین و قانون کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گا، یہاں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ نئی مردم شماری کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں چیلنج کیا جا چکا ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے آئین کی دفعہ 184/3 کے تحت درخواست دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کو فوری انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا حکم دیا جائے کیونکہ مشترکہ مفادات کونسل کے پانچ اگست کے جس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا اس میں پنجاب اور صوبہ خیبر کی طرف سے نگران وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی جو عوام کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتے اس لیے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل آئینی نہیں تھی اور نگران وزرائے اعلیٰ اجلاس میں شرکت کے اہل نہیں تھے اس لیے عدالت عظمیٰ الیکشن کمیشن کو آئین میں دی گئی مدت نوے روز کے اندر انتخابات کرنے کا پابند کرے۔ عدالت عظمیٰ کا اس درخواست پر فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہو گا۔