فکری لغزشوں کا اعتراف

510

پاکستان کو قائم ہوئے 75سال ہو گئے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی 14اگست نہایت اہتمام کے ساتھ منایا گیا۔ 14 اگست اس بھولے بسر ے ماضی کو یاد کرنے کا بہانہ ہے جسے ہم فراموش کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانان برصغیر کو تو بس ایک یہی خواب دکھا گیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد مملکت خداداد میں اسلام کا عالمگیر نظام حیات نافذ العمل نظر آئے گا اور مسلمان انگریز اور ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہوجائیں گے۔ لیکن آج 75سال گزر جانے کے باوجود اب بھی پاکستانی قوم عملاً انگریز کی غلام ہے۔ اسلامیان برصغیر نے پاکستان بڑی جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ قربانیوں کی لا زوال داستانیں رقم کرنے کے بعد بالآخر 14 اگست 1947ء کو انگریزوں سے آزادی نصیب ہوئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ لیکن بد قسمتی سے قوم کی روایتی فکری لغزشوں اور نا اہلیوں نے آزادی کے اس دن کو پہلے سے زیادہ بد ترین غلامی کا نقطہ آغاز بنا دیا۔

پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اسے بالکل فراموش کیا جا چکا ہے۔ آج پاکستان کے مسلمان ایسی نادیدہ غلامی میں جکڑے جا چکے ہیں جس کا انہیں احساس بھی نہیں ہے۔ جس طرح کسی بدعت کے کرنے والے کو توبہ کی توفیق نہیں ہوتی چونکہ اس کے نزدیک یہ عمل گناہ نہیں بلکہ کار ثواب ہوتا ہے بعینہٖ اس طرح غیر محسوس انداز میں غلامی کرنے والوں میں اس لعنت سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ان کے نزدیک ہم غلام نہیں بلکہ آزاد ہیں۔ بانیان پاکستان کی وفات کے بعد ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں آئی ان عاقبت نا اندیش اور کرپٹ قیادتوں نے پاکستان کے وسائل کو جی بھر کے لوٹنے کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی بھی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے والوں نے اگر کوئی کام کیا تو صرف ملک میں نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ہی کھڑی کیں موجودہ حکمرانوں کے دور میں دو بار سود کی لعنت کے خلاف شریعت عدالت کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا جو ہماری بد قسمتی ہے حالانکہ پاکستان دنیا کی واحد ریاست تھی جو خالصتاً ایک نظریے یعنی اسلام کے نام پر قائم کی گئی تھی۔

اسلام سے انحراف کی سزا قیام پاکستان کے 24 سال بعد ہی اس انداز میں ملی کہ ملک دولخت ہو گیا اور ہمارا مشرقی بازو بنگلا دیش بن گیا۔ سقوط ڈھاکا کے باوجود نئی سازشیں شروع ہونے لگیں اور مشرقی پاکستان کو بھول جانے کو کہا گیا تاکہ ہم بدلہ لینے کے بجائے ہندوؤں کی غلامی کو قبول کر لیں۔ کشمیر کا مسئلہ جو قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے۔ اس کا کوئی حل نہ نکالا گیا بلکہ مختلف حکومتیں اس مسئلے کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہیں۔ کسی نے بھی اس کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کا حصول ہی زیادہ بگاڑ کا سبب ہے۔ آج 75 سال گزر جانے کے باوجود ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح محض اٹھائیس فی صد ہے۔ انگریز ملک چھوڑ گئے لیکن ان کا تیار کردہ نظام جوں کا توں موجود ہے کوئی بھی شعبہ ہو معمولی ترامیم کے ساتھ محض چہرے بدل گئے ہیں۔ انگریز کے چھوڑے ہوئے نظام تعلیم میں تو اب تک بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی بلکہ کچھ اگر اس میں ہماری ثقافت یا دینی نصاب تھے وہ سب ختم کیے جارہے ہیں حال ہی میں آرٹس گروپ کو ختم کرنے کا اعلان طلبہ وطالبات اور والدین سخت پریشانیوں کا سبب ہے، نااہلوں کے ہاتھوں میں ہمارا مستقبل ہے۔ بلکہ انگریز کے دور میں تعلیمی نظام کا ایک معیار تھا۔ اس وقت کا میٹرک پاس بھی آج کے بی اے، ایم اے کرنے والے سے زیادہ قابلیت رکھتا تھا لیکن موجودہ تعلیمی نظام دینی اعتبار سے بالکل خالی تو ہے ہی مگر عصری اعتبار سے بھی جوہر قابل پیدا کرنے میں ناکام ہے۔

تقسیم برصغیر کے وقت پاکستان کے حصے میں جو علاقے آئے وہ صنعتی لحاظ سے بالکل پسماندہ تھے اکا دکا ملیں اور چھوٹے کارخانے تھے۔ زیادہ تر معیشت کا انحصار زراعت پر تھا۔ اگر ابتداء سے حکمران زیادہ توجہ ملکی استحکام کی طرف دیتے تو یقینی طور پر صنعتی ترقی کی راہ ہموار کرتے کیونکہ جدید دور میں کوئی بھی ملک محض زراعت کے بل پر معاشی خوشحالی نہیں خرید سکتا۔ انگریز کا چھوڑا ہوا سیاسی نظام بگڑی ہوئی شکل میں آج بھی رائج ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ آخر اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک پر مغربی نظام کس طرح لاگو کیا جا سکتا ہے؟ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک پر وڈیروں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے آباؤو اجداد ذاتی مفادات کے لیے انگریز کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے اور اپنے آقاؤں سے وفاداریوں کے عوض بڑی بڑی جاگیریں وصول کرتے رہے اور اب تو ہمارے حکمران بیورو کریٹ بن چکے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غیر ملکی کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت سیاستدان نہیں بلکہ بیورو کریسی چلاتی ہے۔ ریاست کے اہم ترین ستون بد کر دار اور کرپٹ ہو چکے ہیں۔ بیورو کریسی سیاستدان صحافت اور دیگر مقتدر طبقات ایک طرف کرپٹ تو دوسری طرف بالا دست قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بن چکے ہیں۔ معاشرہ کے 75 فی صد طبقات مکمل طور پر انگریزوں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ رہنے سہنے کھانے پینے پہنے اوڑھنے لکھنے لکھانے غرض ہر کام میں مغربی طریقے استعمال کرنے پر فخر کیا جا تا ہے۔ احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ اسلامی طرز معاشرت کو فرسودہ قرار دیا جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغرب کی ذہنی غلامی کی سازش جو کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے وہ کسی ذی شعور کی نظر سے اوجھل نہیں ہے۔ ان ذرائع سے امت مسلمہ کے لیے مہلک نظریات کھلے عام فحاشی عریانی کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں۔ باطل قوتیں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کے اذہان کو مسخ کررہی ہیں۔ ان کی فکری تخلیقی صلاحیتیں چھینی جا رہی ہیں۔ انہیں بے مقصد زندگی کا دلدادہ بنایا جا رہا ہے۔ فکری نظریاتی اخلاقی بگاڑ پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ نئی نسل میں دین سے بیزاری بھی ذہنی غلامی کا مظہر ہے۔ اس وقت بد عنوانیاں، رشوت، سفارش، جھوٹ، بددیانتی، دھوکے بازی معمولی باتیں ہیں۔ آخر ہمارا ملک کس طرح اب تک قائم ہے یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔