انتخابات۔ غیر یقینی

1679

پاکستان میں 13 جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت کی مدت مکمل ہورہی ہے۔ وزیراعظم کو قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے ذریعے نگراں حکومت تشکیل دینی ہے۔ حکومتی اتحاد نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اسمبلیوں کی مقررہ مدت مکمل ہونے سے کچھ دن قبل قومی اسمبلی تحلیل کی جائے گی تا کہ نگراں حکومت کے پاس انتخابات کرانے کے لیے 90 دن کی مہلت رہے ورنہ آئین کے تحت 60 دن کے اندر انتخابات کرانا لازمی ہے۔ نگراں حکومت اور اس کے سربراہ یعنی وزیراعظم کے نام کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ فیصلہ اتحادی حکومت میں شامل دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کرے گی۔ یہ دونوں جماعتیں ماضی میں ایک سے زائد بار حکومت میں رہ چکی ہیں۔ سیاسی مبصرین کے سامنے یہ امر واضح ہے کہ اصل فیصلہ وہیں ہوگا جہاں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رجیم چینج آپریشن کے ذریعے موجودہ اتحادی حکومت قائم کرنے کا ہوا تھا۔ حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی پشت پر ’’نامعلوم‘‘ قوتیں تھیں جن کی وجہ سے عمران خان کی اتحادی جماعتوں نے اپنی حمایت واپس لے لی۔ انہی کی وجہ سے تحریک انصاف میں بھی بغاوت ہوئی اور اس وقت ان کی جماعت کے منحرف رہنما حکومت کے اتحادی ہونے کے ساتھ قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور میاں شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت قائم ہونے کے بعد سیاسی و اقتصادی بحران میں تیزی آگئی، مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان نے عوام الناس کو مصیبت عظمیٰ میں مبتلا کردیا۔ مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ سابق حکومت کے دور میں بھی تھا جس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہورہی تھی۔ عمران خان کی معزولی کے بعد سیاسی منظرنامہ بدل گیا۔ عمران خان کی حکومت کے بارے میں ان کی مخالف تمام جماعتوں کا الزام تھا کہ یہ ’’سلیکٹڈ‘‘ حکومت ہے جسے اسٹیبلشمنٹ نے ’’پروجیکٹ عمران خان‘‘ کے نام سے مصنوعی طور پر مسلط کیا ہے۔ انتخابی نتائج مخصوص انجینئرنگ سے حاصل کیے گئے ہیں اور خاص طور پر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور سیاسی امور میں اس کی غیر آئینی مداخلت کے خلاف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان کی سیاست کی صف بندی بدل گئی، وہی الزام جو موجودہ اتحادی حکومت کے رہنما عائد کرتے تھے عمران خان نے بھی عائد کرنا شروع کردیا اور زیادہ طاقت سے بلند کیا اور سلیکٹڈ کے مقابلے میں ’’امپورٹڈ‘‘ کا نعرہ دیا کیونکہ ان کا یہ بھی الزام تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے پشت پر امریکی مداخلت ہے جس کے احکامات انہوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ عمران خان نے تیزی سے رابطہ عوام بڑھادیا، جس نے ان کی گرتی ہوئی مقبولیت کو ایک بار پھر مزید بلند کردیا، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ تو ہو ہی رہا تھا پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلے درجے تک پہنچ گئے، وطن عزیز ’’ڈیفالٹ‘‘ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے امریکا اور آئی ایم ایف کی سربراہ سے منت سماجت کرکے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرایا ہے اور اب پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا اور اب ملک اقتصادی ترقی کے سفر پر دوبارہ گامزن ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف نے 9 ماہ کی مہلت دی ہے اور 3 ارب ڈالر کا قرض دیا ہے، جو قرض پاکستان کو واپس کرنا ہے وہ کہاں سے آئیں گے، اس کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ اس پس منظر میں غیر منتخب حکومت کی قیاس آرائیاں جاری تھیں، یہ قیاس آرائیاں حقیقت بنتی نظر آرہی ہیں، موجودہ اتحادی حکومت نے 16 ماہ کی حکومت کے دورانیے میں دو ہی کام کیے ہیں، بدعنوانی اور کرپشن کے مقدمات سے نجات کے لیے قانون سازی اور عالمی طاقتوں اور مقتدر طاقتوں کے احکامات پر کی جانے والی قانون سازی اور قانون سازی جس انداز میں کی گئی ہے اس کی تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان کا کام ربر اسٹمپ کے ذریعے اپنی تائید کی مہر لگانا ہے۔ انہیں خود غور کرنے، اپنی رائے دینے کی اجازت نہیں ہے اور اس تابع داری کو قبول کرلیا ہے۔ اس منظرنامے نے جمہوریت کے دعوئوں کو تماشا بنادیا ہے۔ پاکستان میں جبرو استبداد اور آمریت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ کوئی مثالی نہیں ہے۔ اس کے باوجود سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کے ایک طبقے نے ایسی مزاحمت کی ہے جس نے جابر آمر کے نام کو بدنام کردیا ہے اور کوئی ان کی حمایت کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک کوئی اس تاریخی عمل کی وجہ سے پارلیمان کی بالادستی کو قائم کرنا اور عسکری اداروں اور ان کی قیادت کو آئین کا پابند رکھنا سیاسی بیانیے کی اولین ترجیح ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی قائدین نے جس طرح تابعداری اور چاپلوسی کا مظاہرہ کیا ہے اس نے ہر صاحب دل کو اضطراب میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ جمہوریت کے باوجود آزاد سیاسی عمل موجود نہیں ہے، جبرواستبداد کی حکمرانی ہے، موجودہ حکومت نے انتخابی اصلاحات کے نام پر قانون سازی کے پردے میں نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافہ کردیا ہے۔ اب جاتے جاتے خفیہ ایجنسیوں کو غیر انسانی اختیارات بھی دے دیے گئے ہیں اور انہیں قانونی بنادیا گیا ہے۔ ان اداروں کو پہلے بھی کوئی قانون کے دائرے میں رکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا، لاپتا افراد کا مسئلہ اور ’’نامعلوم‘‘ کی اصطلاح انہی اداروں کی انسانیت سوز سرگرمیوں کے نتیجے میں وضع ہوئی ہے۔ اس لیے انتخابات کا انعقاد غیر یقینی نظر آرہا ہے ۔ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ انتخابی عمل سے فرار پر سیاسی جماعتوں کی اکثریت اور اسٹیبلشمنٹ میں ان کے سرپرستوں کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو عوامی غیظ و غضب کا خوف لاحق ہے، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ خوف ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے حاصل کیے جانے والے نتائج کے مضمرات بھی سنگین ہوں گے۔ اس پس منظر میں پاکستان میں خوف اور جبر کا ماحول ہے۔ تمام قوتیں طاقتوروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہیں، جمہوریت اور انتخابی حکومتیں جاگیرداروں، عالمی سرمایہ داروں کے ٹھیکیداروں اور عسکری طاقتوں کی چاکری کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم، قائدحزب اختلاف تک انتخابات کی تاریخ بڑھانے کی باتیں کرنے لگے ہیں، انتخابات کی تاریخ کا تعین الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے، جو کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتا۔ اس وقت قوم کے سامنے ایک نظیر بھی موجود ہے، پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں، نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود آج تک انتخابات نہیں کرائے، پوری دنیا کے سامنے آئین اور قانون موم کی ناک بنادیا گیا۔ پہلے دستور کی پابندی سے بچنے کے لیے فوجی سربراہ مارشل لا لگادیا کرتے تھے لیکن اب مارشل لا کی ضرورت نہیں ہے اور سول حکومت کے سائے میں مارشل لائی حکمرانی جاری ہے۔ جب بعض نام نہاد ’’باخبر افراد‘‘ یہ کہتے تھے کہ ملک میں ٹیکنوکریٹ کی حکومت کے قیام کا فیصلہ ہوچکا ہے تو ان سے سوال یہ کیا جاتا تھا کہ ٹیکنوکریٹ حکومت کی آئین میں کیا گنجائش ہے تو آج اس سوال کا جواب مل گیا ہے کہ جن قوتوں نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات نہیں ہونے دیے اور اپنی مرضی کی نگراں حکومت سے کام چلا رہے ہیں اس لیے اب کسی بہانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مزاحمت کرنے والی سیاسی قوتوں نے تابعداری اور چاپلوسی میں مہارت حاصل کرلی ہے۔