ـ8 اگست کا انتظار کیوں ہے؟

1584

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے پی ڈی ایم کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اب 8 اگست کا انتظار نہ کرے اقتدار چھوڑے اور گھر جائے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں نگراں حکومتوں کے قیام کی تیاریاں ہیں اور یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ نگراں حکومت تین ماہ چلے گی یا زیادہ جبکہ ملک کا حال یہ ہے ہر طرف بدامنی ہے کے پی اور بلوچستان میں خودکش حملے ہورہے ہیں اور حکمراں صرف دعوے کررہے ہیں۔ سراج الحق ملاکنڈ میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے۔ یہ وہی علاقہ ہے جس میں سراج الحق کو 2018ء میں ہرانے کے لیے جنرل باجوہ انتظامیہ نے ہر حربہ اختیار کیا، بیلٹ بکس تک اٹھا کر لے جائے گئے، اس مینڈیٹ چوری پر بھی صرف قانونی احتجاج کیا گیا اور اب اسی جگہ جلسے میں ایک لاکھ سے زائد لوگ شریک تھے۔ سراج الحق نے کہا پورا ملک معاشی تباہی کی لپیٹ میں ہے اس پر طرہ بدامنی کا عفریت ہے۔ کے پی میں جے یو آئی کے کنونشن میں اسی روز دھماکا ہوا۔ بلوچستان میں ایف سی بھی نشانہ ہے اور عام آدمی کا تو حال ہی برا ہے۔ سراج الحق نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پی ٹی آئی کے دس سالہ دور میں کے پی میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ انہوں نے مرکزی حکومت کے بارے میں خصوصیت سے کہا کہ ایسے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ملک کا جغرافیہ محفوظ ہے نہ ثقافت۔ ان حالات میں یہ مخلوط حکومت 8 اگست کا انتظار کیوں کررہی ہے۔ اتنے دنوں میں کیا کارنامہ ہوجائے گا جو چودہ پندرہ ماہ میں نہیں ہوا۔ ان کا سارا انتظار صرف نگراں حکومت کے تقرر پر اتفاق رائے کے لیے ہے۔ ایسی حکومت جس پر حکمراں سیاسی اتحاد میں اتفاق ہوجائے۔ اپوزیشن یا عوام کے اعتماد پر کسی قسم کی بات نہیں کی جارہی۔ یہ اپنے اقدامات اور مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ سراج الحق نے توجہ دلائی کہ ان حکمرانوں کے پاس بیرون ملک اربوں ڈالر ہیں اس ملک میں یہ شہزادوں کی طرح رہتے ہیں عوام پر حکمرانی کرتے ہیں ان کے بچے شہزادوں اور شہزادیوں والی زندگی گزارتے ہیں ان کی کرپشن اب کوئی راز نہیں ہے ان کی آف شور کمپنیاں محض کہانیاں نہیں ہیں۔ عجب ظلم ہے کہ اس ملک میں تبدیلی کا نعرہ بھی قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی نے لگایا تھا اور ان دو پارٹیوں سے جان چھڑانے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دینے کی اپیل کی تھی لیکن منصوبہ سازوں نے یہ نعرہ بھی جماعت اسلامی سے چھین کر کسی اور کی گود میں ڈال دیا اور اس نعرے ہی کو بری طرح بدنام کر کے رکھ دیا کہ اب تبدیلی کا نام سنتے ہی لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ لیکن تبدیلی ضروری ہے، قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ پہلے دو پارٹیاں اور اب تین پارٹیاں اور ان میں سے بھی مزید پارٹیاں برآمد ہورہی ہیں۔ یہ سب دراصل ایک تسلسل کی قسطیں ہیں جو کسی نہ کسی نئے نام سے آجاتی ہیں۔ حقیقی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تبدیلی تو وہ ہوگی جس میں ایم این اے اور ایم پی اے عوام کے درمیان اٹھنے بیٹھنے والا فرد ہو جس میں یہ ایم این اے اور سینیٹر اپنی مراعات کے بل پاس نہ کروائیں بلکہ قوم کی خدمت کریں۔ اس کے لیے سراج الحق نے ایک بار پھر قوم کو توجہ دلائی ہے کہ اس یکسانیت اور اسٹیٹس کو سے نکلنا ہے تو جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ اس کے بغیر ملک میں نظام حکومت، نظام عدل میں اور عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ سراج الحق کی پکار پر اگر قوم جمع ہوجائے اور حقیقی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرے تو اسے ہر حال میں ایک کامیابی ضرور ملے گی۔ یا تو وہ تبدیلی حاصل کرلے گی یا پھر حق کی جدوجہد کا ثمر اس کو اللہ کے حضور ملے گا۔ ہمارے حکمراں مستقل ایک ہی چیز قوم کو دکھارہے ہیں اور اسے سبز باغ کہا جاسکتا ہے۔ ملک ترقی کرے گا، بڑی معیشت بنے گا خوشحالی آئے گی، فراوانی ہوگی اور نہ جانے کیا کیا وعدے کیے جاتے ہیں لیکن ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کو برا بھلا کہہ کر وقت گزارتی ہے اور جاتے وقت وہی گھسا پٹا جملہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہمیں اور موقع ملتا تو ہم ملک کی تقدیر بدل دیتے۔ یہ تو پچھلے حکمراں تھے جنہوں نے ملک تباہ کردیا تھا اور حال یہ ہوگیا ہے کہ صرف پانچ سال میں گزشتہ تیس چالیس سال کے سارے حکمران ایک ساتھ آزما لیے گئے۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی ان دونوں کے بطن سے برآمد ہونے والی ق لیگ اور پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم جیسے شامل باجا قسم کے چھوٹے بڑے گروپ بار بار اقتدار میں رہ کر بھی کچھ نہ کرسکے۔ اب سراج الحق نے پکارا ہے تو لوگ ہر طرف نکل کھڑے ہوں اور اگر یہ حکمراں ٹولہ نئی باری کے انتظار میں ہے تو ان سب کو ایک ساتھ گھر بھیج دیا جائے۔ ایک دفعہ قوم نکل آئے ان سب کو نکال کر گھر بھیج دے پھر چین سے اپنے گھروں میں رہے۔