یہ بیٹیوں کا معاملہ ہے ذرا سنبھل کے

1012

یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہپی کہ پاکستان کا9/11 کس واقعے کو کہا جائے1971ء میں93 ہزار فوج کا اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا سرنڈر ہمارا9/11 تھا یا سقوط ڈھاکا ، جنرل ضیاء الحق کا اقتدار میں آنا اور بھٹو کو پھانسی دینا سیاسی نظام کا9/11 تھا یا جنرل ضیاء الحق کا 29 فوجی افسروں کے ساتھ طیارے میں شہید ہو جانا ہمارا9/11 تھا ۔ نہیں شاید جنرل پرویز مشرف کا ایک منتخب حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کرنا9/11 تھا لیکن اسے بھی اتنا بڑا سانحہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ تو اس سے قبل بار بار ہو چکا تھا ۔ ہاں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کو کہا جا سکتا ہے کہ قوم کے نونہالوں کو شہید کیا گیا ۔ لیکن اس سے بڑا واقعہ تو اس تاریخ کو یعنی16دسمبر کو سقوط ڈھاکا ہو چکا تھا اب تازہ ترین9/11 جس واقعے کو قرار دیا جا رہاہ ے وہ 9مئی کا واقعہ ہے جس میں کوئی مرا نہ کسی نے ہتھیار ڈالے نہ کسی نے بمباری کی نہ ملک ٹوٹا ۔ ہم ان سب واقعات کو غلط سمجھتے ہیں باعث شرم بھی ہیں ۔ پاکستان اور مسلمانوں کی رسوائی کا سبب بھی ہیں ۔لیکن جو واقعہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حوالے سے سامنے آیا اور جس انداز میں لایا گیا ہے ہم تو اسے پاکستان کا قومی9/11 سمجھتے ہیں ۔ یہ اچانک کیوں سامنے آیا ۔ پانچ ہزار پانچ سو قابل اعتراض ویڈیوز کیسے ایک ساتھ سامنے آئیں ۔ اس کی کس نے تصدیق کی کس نے ان ویڈیوز کو دیکھا اور کس نے فارنسک جانچ کرائی ۔ یہ اتنا ہولناک انکشاف ہے جس کی ساری بنیاد سوشل میڈیا ہے ۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کو صرف ایک انگلی ہلانی ہوتی ہے اور تیر نکل جاتا ہے ۔ کوئی کوئی اتنا سمجھدار اور ذمہ دار ہوتا ہے کہ اپنی غلطی کو فوراً ٹھیک کرتا ہے ویڈیوز ڈیلیٹ کرنا ہے اور معذرت کرتا ہے لیکن زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ جو سنا جو سامنے آیا اسے جوں کا توں آگے بڑھا دیا ۔ تھوڑی احتیاط یہ ہو گئی کہ اس پر لکھا جائے گا کہ کاپی پیسٹ ۔ اور بس…
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کا سیکورٹی انچارج پانچ ہزار پانچ سو ویڈیوز بنا کر لڑکیوں کو بلیک میل کرتا تھا ۔ اس پر الزام یہ بھی ہے کہ اس بنیاد پر وہ لڑکیوں کے نمبرز بڑھواتا تھا ۔ ان خبروں میں وائس چانسلراور ان کے ساتھیوں کے بارے میں خصوصی طور پر بتایا گیا کہ وہ سب ملوث تھے ۔ہم نے بہاولپور کے اہم وکیل سے رابطہ کیا انہوںنے جو معلومات ہم کو دیں اس نے تو ہوش اڑا دیے ۔ ان کے مطابق جو وہ نہایت ذمے داری سے کہہ رہے تھے کہ یہ بات آپ اور ہم سب جانتے ہیںکہ ایک بڑے ادارے میں دو دو تین تین گروپ ہوتے ہیں ۔ان میںاختلافات ہوتے ہیں ۔ یہاں بھی یہی معاملات ہیں ۔انہوںنے بتایا کہ ایک گروپ وائس چانسلر گروپ ہے اس نے گزشتہ دنوں ڈائریکٹر فنانس کو اس کے پاس سے آئس برآمد کر کے جامعہ سے نکلوا دیا تھا جس کے بعد سے مخالف گروپ وائس چانسلر گروپ کے خلاف کسی موقع کی تاک میں تھا ۔ چنانچہ ان کو سیکورٹی چیف ہاتھ آ گیا جس کو وائس چانسلر گروپ کا سمجھا جاتا ہے ۔ اور یقیناً وائس چانسلر کے ما تحت ہونے کے ناتے ایسا ہی ہو گا ۔ واقعہ کے حقائق جانے بغیر کسی ویڈیو کا فارنسک ٹیسٹ کرائے بغیر کسی لڑکی کی ذاتی شکایت کے بغیر ایک گروپ نے دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے قوم کی بیٹیوں کو دائر پر لگا دیا ۔ یہ ویڈیوز وائس چانسلر اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کی ہدایت پر ہی بنائی گئی تھیں ۔کیونکہ جامعہ میں لڑکے لڑکیوں کے تنہائی میں ساتھ بیٹھنے پر پابندی ہے اس لیے وہاں ایسے کاموں کی روک تھام کے لیے سیکورٹی کو ہدایت دی گئی تھی کہ جہاں بھی لڑکے لڑکی تنہائی میں بیٹھے ہوں ان کی ویڈیو بنا کرسیکورٹی والوں کو دی جائے ۔ یہ کام بجائے خود ایک غلط کام ہے ۔ کسی کے غلط کام کو ویڈیو کی شکل میں محفوظ کرنے ، بلیک میلنگ والے راستے بھی کھل سکتے ہیں اور کسی وجہ کے بغیر محض کسی کونے میں بیٹھنے کی وجہ سے لڑکی کو بدنام بھی کیا جاتا ہے ، اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اب سیکورٹی انچارج گرفتار ہے اس نے وکیل بھی کر لیا ہے ۔ اس کا دعوی ہے کہ ویڈیوز یقیناً پانچ ہزار پانچ سو ہی ہیں لیکن یہ جامعہ کی انتظامیہ کے کہنے پر بناکر اسے دی گئی تھیں اس کا دعویٰ ہے کہ کوئی ویڈیو فحش اور قابل اعتراض حالت میں نہیں ہے ۔ بس لڑکا لڑکی قریب بیٹھے ہوئے ہیں اور تہا گوشے میں ہیں ۔
اب ذرا اس جامعہ کی پوزیشن دیکھیں ایک جائزے کے مطابق یہ جامعہ ملک کی175 جامعات میں سے15ویں نمبر پر ہے ۔ اس کے126 شعبہ جات ہیں ۔ صبح شام کلاسیں ہوتی ہیں ۔46ہزار طلبہ و طالبات ہیں اور تین سو سے زاید مستقل اساتذہ ہیں ۔ اس واقعے کے انکشاف کا ذریعہ سوشل میڈیا ہے ۔ سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو آسٹریلیا یک قدیم بومی رینج سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ۔ جو ماہر شکاری استعمال کرتے تھے ۔ اپنے شکار پر پھینکتے اور وہ گھوم کر واپس ان کے ہاتھ میں آ جاتا تھا ۔ لیکن نو آموز سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے وہ کام کیا کہ ہتھیار واپس آیا تو اپنے ہی اوپر استعمال ہو گیا ۔ابھی تک کسی ویڈیو کا فارنسک نہیں ہوا ۔ کسی ویڈیو کے بارے میں فحش کا فیصلہ نہیں ہوا تو پھر اس سارے شور شرابے کا نقصان کسے ہو رہا ہے۔ اس کا بھی جائزہ لے لیں اب جامعہ اسلامیہ بہاولپور کی بیس ہزار سے زاید طالبات میں سے کوئی بھی فور جی پی لانے کا دعویٰ کرے گی تو اس کو عجیب سی نظروں سے دیکھا جائے گا ۔ کہ پڑھ کر ملے ہیںیا سیکورٹی انچارج سے تعلق ہے ۔ اور یہ صرف اسلامیہ یونیورسٹی تک محدود نہیں رہے گا پورے پاکستان کی بیٹیوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہوا ہے کہ ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے جب پاک فوج کے مطابق9/11 کہا یعنی9مئی کا واقعہ کیا اور گرفتاریاں ہوئیں تو عمران خان تواتر سے کہتے رہے کہ گرفتار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ہو رہی ہے ۔ ان کی عزت لوٹی جا رہی ہے ۔ انہوں نے یہ بیان مغرب کے لیے اور فوج کو بدنام کرنے کے لیے دیا۔یہ خواتین کتنی ہی آزاد خیال اور کتنی ہی روایتی ہوں ان پر ایک دھبہ لگا دیا کہ ان کی آبرو دوران حراست محفوظ نہیں رہی ۔ اب وہ ساری عمر حلف اٹھا اٹھا کر بھی کہتی رہیں گی کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوا تو بھی لوگ کہیں گے کہ کچھ تو ہوا ہوگا ۔ آخر عمران خان جھوٹ تونہیں بولتا ۔ تو صاحبو اس نازک معاملے میں جو بیٹیوں کا ہے کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو عدالت میں لے جا ئے خود کھڑا ہو کر ثابت کرے ورنہ اپنے واٹس اپ کو بند کرے ، ٹوئٹر اکائونٹ اور فیس بک کو بند کر دے۔ یہ سوشل میڈیا کے چیتے بتائیں کہ جو شور مچا ہے اسلامیہ یونیورسٹی کی طالبات کے بارے میں وہ سب کچھ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ گزشتہ20برس میں ہو چکا بلکہ اس سے زیادہ ہو چکاپھر آخر وہ ان کو عافیہ صدیقی کے بارے میں سانپ کیوں سونگھ گیا ۔ کسی عسکری ادارے کو بدنام کرنے پر دو سال تک کی سزا دی جا سکے گی اور قوم کی بیٹی کو بیچنے والے اور اب قوم کی بیٹیواں کو بدنامی کے چوراہے پر لا ڈالنے والوں کے لیے کوئی قانون ہے ۔ خدا کا واسطہ اپنے ہاتھ روکو ورنہ یہ آگ اپنے گھروں میں آنے سے روک نہیں سکوگے ۔اگر یہ سب سچ ہے تو بھی تحقیقات تو ہونے دو اپنے آپ ہی کو نقصان تو نہ پہنچائو۔