ایام اللہ اور ان کا پیغام

548

اسلامی سال کے پہلے مہینہ محرم الحرام کا آغاز ہو گیا ہے یہ حرمت والا مہینہ ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن میں جنگ و جدل اور قتل و غارت گری عربوں کے دورِ جاہلیت میں بھی حرام تھی اور اسلام نے بھی ان چار محترم مہینوں کو حقیقی معنوں میں امن و آشتی کے ایام میں بدل دیا ایک مسلمان ہونے کے ناتے ان ایام میں غیر مسلموں تک سے مسلمانوں کو خود سے جنگ کرنے سے گریزکرنے کی ہدایت ہے اور صرف اسی صورت میں جنگ کی اجازت ہے جب غیر مسلم فریق اور باطل طاقتیں واقعی جنگ پر آمادہ ہوں کجا کہ مسلمان آپس ہی میں بر سر پیکار ہوں اور ان ایام کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوں اپنی زبان و عمل سے ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہوں اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ ایسے مسلمانوں کو اپنے انجام بد سے ڈرنا چاہیے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلمانوں نے محرم الحرام کے تقدس کی پامالی کے لیے کئی دوسرے ’’شعائر‘‘ وضع کر لیے ہیں جن کا سرے سے ’’دین اسلام‘‘ سے کوئی تعلق نہیں یکم تا دس محرم الحرام ہمارے معاشروں میں جو کچھ کیا جا تا ہے۔ وہ ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم من حیثیت المسلم اپنے عقائد و اعمال کو قرآن اور صاحب قرآن کے اسوہ سے ہم آہنگ کریں اپنی کوتاہیوں، لغزشوں اور کجے فہمیوں کا جائزہ لیں ایسی مثبت تبدیلی کی صورت میں ہی ہم پر مسلط وہ سختیاں، خارجی مسائل کی صورت میں آنے والے مذاہب، باطل قوتوں کے معاشی و قومی دباؤ، بیرونی قرضوں کی لعنت اور داخلی سطح پر مسلکی، نسلی، علاقائی تعصبات اور ان کے نتیجہ کے طور پر آپس کی جانی دشمنیاں، بغض و عداوت، قتل و غارت گری، سمیت تمام اجتماعی اور انفرادی برائیوں سے نجات مل سکتی ہے اور ہمارے ملی جذبے بحال ہوسکتے ہیں۔

ہماری سوچ و فکر اگر منفی ہی رہی اور ہم نے یکسو اور قرآن کی اصطلاح میں ’’حنیف‘‘ بن کر قرآن اور صاحب قرآن کے اْسوہ کو نہ اپنایا اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی، حرام ذرائع آمدنی ہی میں اپنی فلاح ڈھونڈتے رہے، غیر مسلم قوموں خاص طور پر یہود، ہنود و نصاریٰ سے محبت و انسیت، ان کے طور طریقے اپنانے اور ان کے اشارۂ ابرو کو ہی اپنی ’’معراج‘‘ سمجھتے رہے ان کے کہنے پر خود ہی اپنے ہاتھ پاؤں خوشی سے باندھتے رہے اپنے طور طریقے، اسلامی تعلیمات، اسلامی معاشرت، اسلامی سیاست، اور عزت و ناموس کے اسلامی پیمانوں سے ہماری روگردانی کا یہی حال رہا اور اغیار کے بتائے ہوئے طور طریقوں پر ہمارے کاروبار معیشت ومعاشرت گامزن رہی تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ کسی فرد یا کسی قوت کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو بدلنا نہ چاہے ایسے ایام اللہ ہمیں یہ درس فراہم کر تے ہیں کہ ہم اپنی مرضی کی زندگی کی روش اختیار کرتے یا اس پر ہی گامزن رہنے کی حالت میں تبدیلی لائیں اور اپنی زندگی اسلام کی تعلیمات پیغمبر علیہ السلام کی سنتوں خلفاء راشدین اہل بیت امہات المومنین صحابہ کرامؓ کے طریق پر استوار کریں کہ حقیقی کامرانی اور فلاح اسی سے وابستہ ہے بصورت دیگر ہم انفرادی طور پر نہ صرف باطل کے ذہنی اور جسمانی غلام بنے رہیں گے۔ بلکہ اجتماعی طور پر ہی حقیر و بے وزن رہیں گے جیسا کہ دنیا کے بیش تر خطوں میں مسلمانوں کی حالت زار ہمارے سامنے ہے۔

عالمی سطح پر آج اسلام کو کئی چیلنج در پیش ہیں سب سے نمایاں چیلنج خود ساختہ واحد سپر پاور ہونے کے دعویدار امریکا کی طرف سے ہے جس نے اسلام کو ’’دہشت گردی‘‘ کے ہم معنی قرار دینے کی کوششیں شروع کررکھی ہیں باربار یورپ کی سر زمین سے اسلام پیغمبر اسلام قرآن کے خلاف توہین آمیز سلوک کا سلسلہ جاری ہے تاکہ لوگوں کو روکا جاسکے اس کی وجہ لوگوں کا اسلام کی طرف رغبت اور قبول کر نا ہے لیکن شیطانی قوتیں اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان جنگ کے ذریعے دنیا کا امن تباہ کرنا چاہتی ہیں اسلام کو چاروں طرف سے نقصان پہچانے کی کوشش ہے اور یہ دین اسلام اس باطل طاقت کی ہم نوائی یہود وہنود، نصاریٰ و صابی (سیکولرز) اگر کرتے ہیں تو بات قابل فہم ہے لیکن سب سے بڑا المیہ یہ کہ مسلمان میں سے ہر خطہ زمین میں ایسے افراد کا ایک چھوٹا گروہ علماء سوء سمیت موجود ہے جو اسلام کی تعلیمات کو ان باطل طاقتوں کی صوابدید پر توڑنا مروڑنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے اور مشرق و سطیٰ، وسط ایشیا اور دنیا کے دوسرے ملکوں کے مسلمان طفیلی اور دست نگر ریاستیں بھی ایسے ہی اسلام کی تائید کرتی ہیں جو سپر پاور اور یہود وہنود کو پسند ہو یعنی ایسا اسلام جس سے حمیت دینی مفقود ہو۔

اسلام کی تعلیمات پر شعوری حالت میں عمل درآمد کے خواہش مند مسلمانوں کو نہ صرف اسلام کی حقیقی تعلیمات حاصل کرنے پر توجہ کرنی چاہیے بلکہ خود اپنوں اور بیرونی عناصر کی ان تعلیمات کو ’’آلودہ‘‘ کرنے کی کوششوں اور بعض تعلیمات کو اپنے من پسند معنی پہنانے کی مساعی نامشکور سے آگاہ رہنا چاہیے بصورت دیگر ان کے بھی اس سیلاب بلا میں بہہ جانے کا امکان ہے۔