عیدالاضحی آئی اور چلی گئی

717

قرآن سیدنا ابراہیم ؑ کے بارے میں قرار دیتا ہے کہ وہ یکسو تھے۔

’’چنانچہ جب اس پر رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا۔ کہا یہ میرا ربّ ہے۔ مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں۔ پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا ربّ مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے ربّ نے میری رہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا ہوتا۔ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا ربّ، یہ سب سے بڑا ہے مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو ابراہیم پکار اٹھا: اے بردران قوم میں ان سب سے بے زار ہوں، جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھیراتے ہو۔ میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ (الانعام: 76-79)

عیدالاضحیٰ سچائی اور ہدایت کے آرزو مند ان ہی سیدنا ابراہیم ؑ کی یاد کا دن ہے جو اللہ کی راہ میں ہر چیز قربان کرنے پر تیار تھے حتیٰ کہ اپنا فرزند بھی۔ یہ دن اس قربانی کی یاد کا دن ہے۔ اس مکالمے کی یاد کا دن ہے جو پھر کسی باپ اور بیٹے کے درمیان نہیں ہوا:

جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا تو ابراہیم ؑ نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کررہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجیے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔ (سورۃ الصفات: 102)

سیدنا ابراہیم ؑ کی داستان علامت ہے اس حقیقت کی کہ جو اللہ کی راہ میں جت جاتے ہیں، جو صداقت کو پا لینے کا تہیہ کرلیتے ہیں پھر وہ اللہ کے دین کی مشعل کو تھام لیتے ہیں اور کا میابی کے زینے طے کرتے چلے جاتے ہیں۔

ہر سال عیدالاضحیٰ آتی ہے اور چلی جاتی ہے، ہم اس دن کو خوب سے خوب تر مناتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم ؑ کی قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں لیکن ہمارے شب وروز، ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی ویسی ہی درماندہ، بوجھل اور تکلیف دہ رہتی ہے۔

ہر سال عیدالاضحیٰ آتی ہے اور چلی جاتی ہے لیکن ہماری صفیں منتشر ہیں۔ ہم یکجا اور ایک نہیں ہیں۔ استعماری کفار کے حملے اس برس بھی ہم پر بارش کے قطروں کی طرح برس رہے ہیں۔ ہم کفار کے نرغے میں ہیں اور ہر جگہ نرغے میں ہیں۔ ہمارے لیے کہیں جائے پناہ نہیں ہے۔ اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی لیکن ظالموں کی تلواریں بدستور ہماری سمت اٹھی ہوئی ہیں۔ ہمیں کاٹ رہی ہیں۔ ان کے کوڑے ان کی نفرت کا نقش ہماری پیٹھ پر چھوڑ رہے ہیں لیکن ہم بے بس ہیں۔ ضعف کا شکار ہیں۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی لیکن ہماری غربت اور افلاس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بھوک اور پیاس، ناخواندگی اور جہالت ہماری نسلوں کا مقدر ہے۔ ہمارے گھروں کے اندھیرے دائمی ہیں۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی لیکن ہمارے زخموں سے مسلسل خون بہہ رہا ہے۔ ہماری آبادیوں پر بے خوفی کے ساتھ مہلک ترین ہتھیاروں کے ساتھ حملے ہورہے ہیں۔ ہماری عمارتیں ڈھیر ہیں۔ ہمارے جوانوں کی لاشوں سے مقتل سجے ہوئے ہیں۔ ہمارے بچے خوف سے چیختے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی ہم قومیتوں کے پنجروں میں قید ہیں۔ ہمارے قیدی آج بھی قید میں ہیں۔ ہمیں انہیں آزاد نہیں کراسکے۔ ہماری پاک دامن عورتیں ہمیں پکار رہی ہیں۔ ان کی چیخیں آسمانوں کو ہلا رہی ہیں لیکن ہم میں کوئی نہیں ہے جوان چیخوں پر لبیک کہے اور اسلام کی حمیت کے ساتھ ان کی مدد کرے۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی اور ہمارے حکمران اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزیوں میں جتے ہوئے ہیں۔ رسالت مآبؐ کی شریعت کا نفاذ ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں۔ آپؐ کی تعلیمات سے وہ دور اور بہت دور ہیں اور امت کو بھی دور لے کر جارہے ہیں۔ بے وقوف لوگ ان کے مشیر ہیں اور اسلام کے داعی ان کے رقیب ہیں۔ ہر کرپٹ اور بدعنوان ان کا محبوب ہے تاکہ وہ اسلامی معاشرے کو کرپٹ اور بدعنوان کرسکے اور دعوت کے علمبرداروں پر زمین تنگ کرسکے۔ وہ درباری علماء کو رشوت دیتے ہیں تاکہ وہ ان کی خلاف شریعت سر گرمیوں کا جواز پیدا کرسکیں۔ وہ ایسے علماء کو استعمال کررہے ہیں تاکہ وہ حق کو باطل کے ساتھ ملاسکیں، ایک کرسکیں۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی اور ہمیں اس عہد کے ایفا کا کوئی خیال نہیں جس کو پورا کرنے کا ہم نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے وعدہ کیا تھا۔ اس امانت کی ہمیں کوئی فکر نہیں سیدالمرسلینؐ نے جو ہمارے سپرد کی تھی۔ اس عہد کی ہمیں کوئی فکر نہیں لاالہ الا اللہ کے ساتھ جس کی تکمیل ہم پر لازم آجاتی ہے۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی اور ذلت، رسوائی، شکست اور بربادی ہمارے ہم رکاب ہے۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی اور اسلام کتابوں اور مسجدوں تک محدود ہے۔ رسوم اور وقتی جذبات میں باقی ہے۔ ہمارے معاشروں اور زندگیوں میں غالب نہیں۔ اسلام ہم پر حکومت نہیں کررہا، اسلام ہم پر حکمران نہیں اور ہمیں کوئی فکر نہیں، کوئی رنج نہیں۔ ہمیں اس عید کی کوئی خواہش اور تمنا نہیں جب ہم آقا نبی پاکؐ کے پرچم کے سائے میں عید گزاریں اور دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوں۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی اور امت کی ذلت کے دور کا تسلسل باقی ہے۔ ہم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رحمت سے قریب تر نہیں۔ فاصلے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔

اس برس بھی عیدالاضحیٰ آئی اور چلی گئی اور کفر کا سرمایہ دارانہ سودی نظام اور اس سے پھوٹتا سیاسی نظام ہمارے طرز حکمرانی کی بنیاد ہے اور ہم اس پر شاداں اور فرحاں ہیں۔ یہ نظام بار بار ہمیں دھو کا دے رہا ہے، ہمیں موت کے صحرا میں چھوڑ کر آرہا ہے لیکن ہم اس نظام کی بحالی اور نفاذ کے لیے پاگل ہوئے جارہے ہیں۔ اس نظام نے ہمیں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیا لیکن اس کو کو توڑنے کی کوئی فکر اور جدوجہد ہمارے اندر موجود نہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور خلافت راشدہ کے نظام کے نفاذ کی ہمیں کوئی فکر نہیں جس کا نفاذ ہم پر فرض ہے۔ یہ وہ فرض ہے جو فرائض کا سرتاج ہے۔ یہ عزت کاراستہ ہے۔ یہ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ ہے۔ یہ رسول اللہؐ کی بشارت ہے۔