وقت

1134

وقت انسان کی زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت انسان کی تخلیق نہیں۔ انسان وقت میں ایک لمحے کی کمی کرسکتا ہے نہ اضافہ۔ انسان کمزور پڑتا ہے اور دوبارہ طاقت ور ہوجاتا ہے۔ انسان دولت سے محروم ہوتا ہے او رپھر دولت حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے لیکن انسان گزرے ہوئے وقت کے ایک لمحے کو بھی دہرا نہیں سکتا۔
ہرمن ہیس نے اپنے معرکہ آرا ناول سدھارتھ میں کہا ہے کہ وقت ایک بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے اور آپ بہتے ہوئے دریا کے پانی میں دوبارہ پائوں نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے کہ آپ جب پائوں اٹھا کر دریا میں دوبارہ پائوں رکھیں گے تو پائوں کے نیچے نیا پانی ہوگا۔ یہی معاملہ وقت کے دریا کا ہے، اس کا ہر لمحہ نیا ہے۔ اس اعتبار سے جب آپ کسی کو ملاقات کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیتے ہیں تو یہ آپ کی طرف سے اس شخص کے لیے ایک نایاب تحفہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ آپ نے اسے اپنی زندگی کے وہ 60 قیمتی منٹس دیے ہیں جو آپ کو کبھی دوبارہ نہیں ملیں گے۔
سیدنا آدم جنت میں تھے تو ان کا عیش صرف یہی نہیں تھا کہ وہ جنت میں تھے اور معصومیت کی زندگی گزارتے بلکہ جنت کی زندگی کا یہ پہلو قرب خداوندی کے بعد جنت کے ہر عیش پر فوقیت رکھتا تھا کہ جنت کی زندگی وقت سے ماورا یا Time Lessness کی زندگی تھی لیکن آدم زمین پر بھیجے گئے تو یہاں زندگی کی دوسری تکالیف کے ساتھ وقت بھی ان کا منتظر تھا۔ زمین کی زندگی دائمی زندگی نہیں تھی۔ یہ ایک عارضی زندگی تھی اور وقت اس عارضی زندگی کو ہر لمحہ ختم کرنے والا تھا۔ لیکن انسان دنیا میں آکر جنت کو بھولا نہیں۔ وہ جب سے زمین پر ہے جنت میں لوٹ جانے کی آرزو کر رہا ہے اور جنت کی سب سے بڑی دلکشی قرب خداوندی اور اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ لیکن اس کے بعد جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ جنت میں وقت نہیں ہوگا۔ چناں چہ نہ کوئی شخص جنت میں بیمار ہوگا نہ بوڑھا ہوگا اور نہ اُسے موت آئے گی۔ جنت کے اسی ماورائے وقت پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غالب نے ظریفانہ انداز میں کہا ہے۔
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
لیکن انسان وقت سے ماورا ہونے میں دلکشی کیوں محسوس کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دائمیت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ انسان نہ کبھی اللہ تعالیٰ کی طرح دائمی تھا نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے مگر جنت کی دائمیت انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی دائمیت کی ایک جھلک ضرور پیدا کردے گی۔
وقت کا تصور انسانی تاریخ میں ایک فلسفیانہ تصور کی حیثیت سے مسلسل زیر بحث رہا ہے لیکن وقت سے متعلق اکثر فلسفیانہ بحیثیں اتنی مجرد ہیں کہ زندگی پر ان کا اطلاق کیا ہی نہیں جاسکتا۔ حالاں کہ وقت پر بحث ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اس کا زندگی پر اطلاق کیا جائے اور اس کی مدد سے زندگی کو سمجھا جائے۔ تاہم مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام نے وقت اور زندگی دونوں پر معنی کی مہر لگا دی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، اس کے معنی یہ ہیں ہمارے دین کے دائرے میں عبدیت ہی ابدیت کے حصول کا راستہ ہے۔ یعنی انسان صرف عبد بن کر ہی وقت پر قابو پاسکتا ہے۔ اس سے ماورا ہو سکتا ہے۔ اس کے صدمات کو جھیل اور جذب کر سکتا ہے۔ انسان کی زندگی میں اچھے اور برے وقت کی بحث ہوتی رہتی ہے۔ اسلام بتاتا ہے کہ اچھا وقت وہ ہے جو عبدیت کے دائرے میں ہے اور برا وقت وہ ہے جو عبدیت کے دائرے سے باہر ہے۔ بعض لوگ صرف نماز روزے کو عبدیت کی علامت سمجھتے ہیں مگر عبدیت پوری زندگی کو عبادت بنادینے کا نام ہے۔ پوری زندگی کو عبادت بنا دینے کے دو ہی اسالیب ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت سے مخلوق کی محبت کی طرف سفر کرے اور دوسرا یہ کہ مخلوق کی محبت کے تجربے کے ذریعے خود کو خدا کی محبت کے قابل بنائے۔ ٹھوس معنوں میں دیکھا جائے تو وقت ہماری دینی روایت اور تہذیب میں ایک ایسی قوت ہے جو زندگی کے امکانات کو سامنے لاتی ہے۔ اقبال نے اپنی معرکہ آرا نظم مسجد قطبہ میں کہا ہے۔
سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات
سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب تارِ حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب صیرفیِ کائنات
اقبال کے ان اشعار میں وقت، وقت کے امکانات کو سامنے لانے والی قوت بھی ہے اور زندگی و موت کی اصل بھی۔ یہاں تک کہ اقبال کے الفاظ میں اسی قوت سے اللہ تعالیٰ کی ذات نے اپنی صفات کا لباس تیار کیا ہے۔ لیکن جہاں تک انسان کے لیے وقت کی ہولناکی کا تعلق ہے تو اس کا تجربہ قرۃ العین حیدر کے ناولوں بالخصوص آگ کا دریا، آخر شب کے ہمسفر اور گردش رنگ چمن میں جس طرح سامنے آتا ہے اس کی مثال تلاش کرنا محال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا مرکزی کردار نہ تاریخ ہے، نہ تہذیب ہے، نہ کوئی انسان ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا مرکزی کردار وقت ہے۔ قرۃ العین حیدر کے یہاں زندگی کے کینوس پر بڑے بڑے انسان، بڑے بڑے تاریخی تجربات، بڑی بڑی تہذیبیں جنم لیتی ہیں مگر وقت ہر چیز کو نگل جاتا ہے۔ اقبال کے یہاں وقت اثباتی قوت بھی ہے اور منفی قوت بھی لیکن قرۃ العین حیدر کے فن میں وقت کی منفیت وقت کے اثباتی پہلو غالب نظر آتی ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں وقت سے بھی بڑی ایک قوت موجود ہے۔ یہ قوت عشق کی قوت ہے۔ چناں چہ اقبال نے کہا ہے۔
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثبات و دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
لیکن اقبال کے شعروں کا ’’مردِ خدا‘‘ کون ہے اور عشق کا مفہوم کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کا مردِ خدا ’’عبد کامل‘‘ اور عشق عبدیت کی گہرائی، وسعت اور کلیّت کا ظہور ہے۔
تاریخ وقت کی تجسیم ہے اور تاریخ کے بارے میں دو بڑے تصورات موجود ہیں۔ ایک یہ کہ تاریخ خط ِ مستقیم یا سیدھی لکیر کی صورت میں سفر کرنے والی ایک حقیقت ہے۔ تاریخ کا دوسرا تصور یہ ہے کہ تاریخ ایک دائرے کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ تمام مذہبی تہذیبوں کا تصورِ تاریخ دائروی یا Circular ہے۔ ہندوئوں کے یہاں بہترین زمانہ ’’ست یُگ‘‘ اور بدترین زمانہ ’’کل یُگ‘‘ ہے۔ لیکن بدترین زمانہ یعنی کُل یگ کے بعد پھر ست یُگ شروع ہوگا۔ عیسائی تہذیب کا بہترین زمانہ سیدنا عیسیٰؑ کا دور ہے جو سیدنا عیسیٰؑ کی دنیا میں دوبارہ آمد کے بعد خود کو دہرائے گا۔ اسلام کا دائروی تصور تاریخ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث مبارک سے ظاہر ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی۔ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ ملوکیت کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی لیکن اس دور کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کی جانب لوٹے گی۔ یعنی وقت پھر خود کو دہرائے گا۔ لیکن دہرانے کے اس عمل میں صرف معنی پرانے ہوں گے۔ معنی کے اسالیب البتہ نئے ہوں گے۔
ہرمن ہیس نے اپنے ناول سدھارتھ میں سدھارتھ کی زبان سے تین اہم باتیں کہلوائی ہیں۔ یہ تین باتیں سدھارتھ کی روحانی زندگی کے تین بنیادی اصول ہیں۔ سدھارتھ ناول میں ایک مقام پر کہتا ہے میں بھوکا رہ سکتا ہوں، سوچ سکتا ہوں اور انتظار کرسکتا ہوں غور کیا جائے تو یہ تین اصول عام زندگی میں وقت پر قابو پانے کے تین طریقے ہیں۔ انسان کی جسمانی زندگی کا انحصار غذا پر ہے۔ لیکن سدھارتھ کہہ رہا ہے کہ میں اس اصول کو الٹ سکتا ہوں۔ میں بھوکا رہ سکتا ہوں یہاں بھوکا رہنے کا مطلب فاقہ کرنے کی صلاحیت نہیں بلکہ مسلسل روزہ رکھنے یا صائم الدھر ہونے کی صلاحیت ہے۔ سوچنے کا مطلب یہاں تخلیق کی صلاحیت کا حامل ہونا ہے اور تخلیقی صلاحیت کے ذریعے انسان ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی دائرے میں دوام حاصل کرتا ہے۔ سدھارتھ کے انتظار کرسکنے کا مطلب صبر کرنے کی صلاحیت کا حامل ہونا ہے اور صبر کسی بھی منفی تغیّر کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے اور تغیّر پر قابو پانے کا مطلب وقت پر غالب آنا ہے۔ لیکن وقت کی معنویت صرف انہی پہلوئوں تک محدود نہیں۔
رسول اکرمؐ کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب سال مہینے، مہینہ ہفتے، ہفتہ دن اور دن ایک گھنٹے کے برابر محسوس ہوگا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایسا ہوچکا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وقت کی رفتار بڑھ گئی ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ زندگی کی برق رفتاری نے وقت کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کو بدل دیا ہے۔ یہی معاملہ مدت کے بعد میدان حشر میں پیش آئے گا۔ خدا انسانوں سے پوچھے گا تم دنیا میں کتنے وقت مقیم رہے تو انسان کہے گا ایک دن یا اس سے کچھ زیادہ۔ ایسا اس لیے ہوگا کہ میدان حشر میں دنیا کے وقت کے ساتھ انسان کا تعلق کمزور ہوجائے گا اور انسان جنت کی ابدی زندگی کے تصور کے قریب ہوجائے گا۔ چناں چہ دنیا کی سوسال کی زندگی بھی ایک دن کی زندگی محسوس ہونے لگے گی۔ بلاشبہ گلاس کا پانی گلاس میں کافی نظر آتا ہے لیکن اگر گلاس میں پانی بھر کر اسے سمندر کے کنارے رکھ دیا جائے تو گلاس کے پانی کو ’’قطرہ‘‘ کہنا بھی دشوار ہوجائے گا۔