اعتراف سے پہلے احساس کر لیں

604

جوں جوں اگست کا مہینہ قریب آرہا ہے تحریک پاکستان اور حقیقی آزادی کے حوالے سے خیالات گھوم پھر کر دماغ سے ٹکرا رہے ہیں۔ ہم میں سے کوئی جب انجینئرنگ یا ڈاکٹری پڑھتا ہے اور اس پیشے کے بجائے دکان داری کرنے بیٹھ جاتا ہے‘ کسی دفتر میں اکائونٹنٹ کی ملازمت کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹری اور انجینئرنگ پڑھنے کا کیا فائدہ؟ اسی طرح اگر کوئی گاڑی مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے بنائی جائے اور اس سے کچرا اٹھانے کا کام لیا جائے تو لوگ کہیں گے کہ پھر ایسی گاڑی بنانے کا کیا فائدہ تھا۔ لیکن پاکستان بناتے وقت بانیانِ پاکستان اور تحریک پاکستان میں شریک لوگوں کے ذہن میں اس ملک کا جو خاکہ تھا اُسے سرے سے تبدیل کر دیا جائے اور پچاس ساٹھ برس بعد کہا جائے کہ یہ ملک تو سیکولرازم کے لیے بنا تھا‘ یہ تو معاشی پستی دور کرنے کے لیے بنا تھا تو پھر کیا کہا جائے۔ لیکن یہ ایسا موضوع ہے کہ اس پر لب کشائی ایک لمحے میں وفادار سے غدار بنا دے گی۔ تاہم اس موقع پر کچھ تحریروں نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چند روز قبل فریحہ مبارک کی حقیقت پر مبنی داستانِ آزادی کے بارے میں تحریر نذر قارئین کی تھی۔ جس کے بعد لوگ کتاب ملنے کا پتا پوچھنے لگے۔ اب جس کتاب کا ذکر ہے وہ ابھی شائع نہیں ہوئی ہے۔ اب ہمارے بہت پرانے دوست بابر فاروقی کی تحریر سامنے آئی‘ اس نے تحریک پاکستان کے ایک اہم پہلو کی طرف نشان دہی کی ہے جس میں ہجرت‘ خاندان سے بچھڑنا‘ بچھڑ کر ملنا اور اپنے گھر میں تیسرے درجے کا فرد بن کر رہنا اور پوری زندگی اسی کیفیت میں گزار دینا شامل ہے۔ اس مختصر کتاب کو دیکھ کر یوں لگا کہ کہیں پاکستان کے ساتھ بھی ہمارا رویہ یہی تو نہیں۔

بابر فاروقی نے عالم برزخ سے خطوط کیا لکھے ہمیں ہی عالم برزخ میں پہنچا دیا۔ ایک کتاب عالم برزخ زیر تکمیل ہے مسودہ میرے ہاتھ میں ہے پڑھتا جا رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ یہ ہم نے کیا کیا۔ کہانی تو قیام پاکستان سے قبل لاپتا ہونے والے چار سالہ بچے کی ہے جو گھر سے کھیلتے کھیلتے لاپتا ہو گیا ایسی بہت سی کہانیاں ہم نے سنی ہیں۔ پاکستان میں تو کئی فلمیں بھی بنی ہیں کہ 1947ء کے فسادات کا گمشدہ بھائی مل گیا‘ باپ مل گیا‘ سگی خالہ کی بیٹی مل گئی اور فلم بن گئی۔ لیکن مسلم کی کہانی عجیب ہے اسے پڑھ کر جو بابر فاروقی نے مسلم کے ساتھ بیتے دنوں اور اس کے احساسات سے اخذ کی ہے‘ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہم مجرم ہیں۔ مسلم اور پاکستان ایک ساتھ بڑے ہوئے پاکستان آنے کے بعد مسلم اپنے گھر والوں سے آملا لیکن وہ اجنبی ہو گیا۔ ذرا غور کریں کہیں یہی رویہ ہم نے اپنے پاکستان کے ساتھ تو نہیں روا رکھا ہے۔ وہ کس لیے بنا تھا‘ کس کا تھا‘ کس کے لیے تھا‘ اُسے کیا بنا دیا۔ آزادی ملی (مسلم مل گیا) لیکن جلد ہی اس سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا گیا۔ پاکستان کے مقتدر طبقے نے بھی ایسا ہی کیا‘ پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اس سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔

24 سال میں اس کا ایک بازو الگ کر دیا۔ شاید اس عمر میں مسلم کو بیماریوں نے آلیا۔ بابر فاروقی نے مسلم کی ترجمانی کرتے ہوئے جو کچھ بیان کیا ہے بار بار یہ یقین کرنے کے باوجود کہ یہ مسلم عرف لاڈلا کی کہانی ہے‘ مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا رہا کہ یہ پاکستان کی کہانی ہے۔ خانہ بدوشوں میں رہنا‘ کبھی جمہوریت‘ کبھی پارلیمانی‘ کبھی صدارتی‘ کبھی مارشل لا‘ کبھی عوامی مارشل لا کبھی اسلامی مارشل لا اور کبھی روشن خیالی۔ گویا پاکستان بھی خانہ بدوشوں میں صبح کہیں‘ شام کہیں کے مصداق کوچے کوچے کی خاک چھانتا رہا۔

بابر نے مسلم کے خط میں ’’گھڑونچی‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اب پاکستان میں گھڑونچی کا استعمال اور یہ لفظ دونوں متروک ہو چکے ہیں۔ مسلم کے اوپر جسمانی تشدد کا حوالہ بھی پاکستان پر پڑوسیوں اور اپنوں کے حملوں سے مشابہ تھا۔ معاش کی فکر اور پاکستان کی معیشت کی فکر ایک جیسے معاملات لگ رہے تھے کہ اگر حق بات کی جرأت کی تو نان شبینہ سے بھی محرومی مقدر ہوگی۔ اسی لیے پاکستانی حکمران بھی حق بات کنے اور پاکستان کا حق لینے سے ڈرتے ہیں البتہ پاکستانیوں کا حق مارنا فرض سمجھتے ہیں۔ مسلم کے ایک خط میں بہن بھائیوں کے متعصبانہ رویے کا ذکر ہے جس پر ہمیں بے ساختہ کراچی کے ساتھ مسلم والا رویہ محسوس ہونے لگا۔ مہاجر‘ مکڑ‘ مٹروا کہہ کر مذاق اُڑانا یہ سب مسلم کے ساتھ بھی ہوتا تھا۔ مسلم کی پوری کہانی میں ہمارے معاشرتی رویوّں‘ دین سے دوری اور اخلاقی گراوٹ کا اظہار ہے۔ ہر چند کہ ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی…‘‘ ہم نے پاکستان کے ساتھ بھی مسلم والا سلوک کیا ہے۔ پاکستان تو قائم رہ جائے گا۔ لیکن جب ہم عالمِ برزخ میں ہوں گے تو مسلم (پاکستان) کے ساتھ اپنی زیادتیوں کا اعتراف کرنے کے لیے اس وقت کے کسی بابر فاروقی کو تلاش کریں گے۔ ابھی وقت ہے اعتراف سے پہلے احساس کر لیں۔ بابر نے یہی کوشش کی ہے کہ قوم اس اعتراف کی کلفت سے بچ جائے اور ابھی احساس کرلے

ایک زمانے میں سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد قوم کو جگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو 40 برس دیے تھے اور ان دنوں قیام پاکستان کو بھی چالیس برس ہو رہے تھے۔ کہتے تھے کہ بنی اسرائیل نے نافرمانی کی سزا پائی ہمیں اللہ سے اور قوم سے اپنے وعدے کا پاس رکھنا چاہیے‘ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہیے‘ سود سے جان چھڑانی چاہیے۔ لیکن ان میں سے کوئی کام نہیں ہوا اور ہم سب نے اس نافرمانی کی سزا بھی دیکھ لی‘ بلکہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ حکمران بھکاری بنے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہوش کریں‘ مسلم (پاکستان) کو اٹھا کر گلے سے لگائیں‘ اس سے کیے گئے وعدے پورے کریں۔ عالم برزخ کے خطوط کا انتظار نہ کریں۔