بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

548

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ تمام ادارے 20 برس تک اپنے اپنے دائرے میں کام کریں تو کامیابی پاکستان کے قدم چومے گی۔ وزیراعظم جو اپنی حکومت کے آخری دن گن رہے ہیں‘ وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ کون سا ادارہ اپنے دائرے میں رہنے کو تیار ہے۔ اگر وہ اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں بھی ہوتے یا دو تہائی اکثریت والے بھی ہوتے تو وہ کون سا ادارہ ہے جس کو وہ اپنے دائرے میں رکھ سکتے تھے۔ یہ بات تو کہی جاسکتی ہے کہ ادارے اپنے اپنے دائروں میں رہیں لیکن ان دائروں کا تعین کون کرے گا؟ آئین نے جو دائرے مقرر کیے ہیں ان کو تو کب کا گڈمڈ کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کا دائرہ مقرر ہے سب کے علم میں ہے لیکن وہ تمام حدود سے بالا تر ہو کر تمام قوانین سے بالا تر ہو کر کام کرتی ہے۔ اسی طرح عدلیہ ہے جس کو کہا جاتا ہے کہ اپنے دائرے میں کام کرے لیکن وہ کسی کے کہنے پر ہر دائرے میں داخل ہو رہی ہے اور رہی پارلیمنٹ تو اس کے بیش تر اراکین کو اپنے ادارے کے دائرے کا ہی علم نہیں کہ کہاں تک ہے اور بالادست کون ہے۔ جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تین ستون ہوتے ہیں اور ریاست کا چوتھا ستون پریس یا میڈیا کو کہا جاتا ہے۔ عموماً چار ستونوں پر عمارت متوازن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ایک پانچواں ستون بھی ہے جس کے کئی نام ہیں محکمہ زراعت بھی ہے‘ خلائی مخلوق بھی ہے‘ مہربان بھی ہے‘ اسے اسٹیبلشمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ کہنے کو تو پانچ ستونوں پر بھی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پانچواں ستون باقی چار ستونوں سے زیادہ اونچا ہے یا اس نے بزعم خود اپنا قد اونچا کر رکھا ہے۔ ایسے میں ریاست کا سارا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ جب کسی عمارت کے چار ستون ایک سائز کے اور پانچواں ستون ان سب سے بڑا ہو تو عمارت کی چھت ہی اپنی جگہ نہیں رہے گی۔ یہی ہماری ریاست کے ساتھ ہو رہا ہے۔
وزیراعظم بہت بھولے تو نہیں جو ایسی بات کر گئے انہیں سب معلوم ہے کہ کون کون سے ادارے یا کون سا ادارہ اپنے دائرے میں رہنے کو تیار نہیں مسئلہ تو یہ ہے کہ حکمران خود کسی کے بتائے ہوئے دائرے میں کولہو کے بیل کی طرح گردش کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سفر بہت طے کر لیا ہے۔ اب تو سیاست میں صرف اسی قسم کے لوگ آرہے ہیں جنہیں معلوم ہے کہ انہیں کس دائرے میں گردش کرنا ہے‘ ان کا نام ’’الیکٹ ایبلز‘‘ رکھا گیا ہے اور یہ الیکٹ ایبلز بھی دراصل پاکستانی قوم کے سیاسی ڈس ایبلز ہیں۔ کسی زمانے میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے والے یا اس کی ڈکٹیشن نہ ماننے والے سیاست دان تھے ان میں سے کسی کو غدار قرار دیا گیا‘ کسی کو قید کیا گیا اور کسی کی پارٹی کے ٹکڑے کر دیے گئے لیکن انہوں نے کولہو کا بیل بننا گوارہ نہیں کیا لیکن افسوس یہ ہے کہ اب آنے والے سیاست دان خود ہی پیش کش کرتے ہیں کہ جی حضور کس پارٹی میں جانا ہے‘ کیا حکم ہے سرکار! اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں ایسی دو بڑی پارٹیاں سب کی نظروں کے سامنے ہی ہیں۔ ایک مسلم لیگ ق بنائی گئی تھی اِدھر اُدھر سے لوٹے لا کر اس میں ڈالے گئے‘ انہیں بھی باوقار الیکٹ ایبلز کا نام دیا گیا اور جب حکومت سازی کا وقت آیا تو دس لوٹے پھر بھی کم پڑ رہے تھے چنانچہ فیصل صالح حیات کی قیادت میں دس لوٹوں کا فارورڈ بلاک بنا اور اس نے مسلم لیگ ق کی حکومت بنوا دی۔ وزارتیں بھی لے لیں اور پیپلزپارٹی نے دس میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کیوں کہ آرڈر پانچویں ستون کا تھا۔ دوسری بڑی پارٹی اسی طرح پی ٹی آئی بنی۔ ہر پارٹی سے توڑ کر لوگ اس میں شامل کرائے گئے اور پھر جب ضرورت نہیں رہی تو اسی طرح لوٹوں کو واپس لڑھکا دیا گیا۔ جب قومی سیاست کا محور بننے والے حکمران ہی اپنے دائرے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے دائرے میں کولہو کے بیل کی طرح گردش کرتے رہیں گے تو دوسروں کو کون ان کے دائرۂ کار میں لائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف بھی جانتے ہیں کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ ایک ہلکے سے جھٹکے سے جا سکتی ہے بلکہ پی ڈی ایم کی حکومت بھی۔ ان کی مسلم لیگ کی اپنی پوزیشن بھی میاں نواز شریف کے ایک اعلان کی مار ہے۔ وہ بھلا کس طرح کسی ادارے کو اس کا دائرہ یاد دلا سکیں گے۔ یہی کیفیت پیپلزپارٹی کی ہے‘ پی ٹی آئی اور عمران خان تو تازہ شکار ہیں لہٰذا اگر یہ سب لوگ جو کبھی کبھی الگ الگ ایسے بیانات دے بھی دیتے ہیںکہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج سیاست سے دور رہیں تو بھی ان کو اپنی حیثیت کا علم ہے۔ اگر یہ سب سنجیدہ ہو کر ہر ادارے کو اس کے دائرے میں رکھنے کا فیصلہ کر لیں تو سب سے پہلے انہیں خود کو ٹھیک ہونا پڑے گا۔ اخلاق اور کردار کے مضبوط لوگ ہی مضبوط فیصلے کر سکتے ہیں۔ طاقت ور اداروں کو وہی دائرے میں رکھ سکتا ہے جو خود رنگا ہوا نہ ہو۔ اور ان سیاست دانوں اور حکمرانوں کو اسی لیے ہاتھ رنگنے کے بھرپو مواقع دیے جاتے ہیں کہ جب چاہا جس کو توشہ خانہ‘ پلاٹ الاٹمنٹ‘ فنڈنگ کیس‘ غیر قانونی اثاثے اور ناجائز آمدنی کے کیس میں پھنسا دیا جائے۔ اگر آج یہ فیصلہ کر بھی لیں کہ سب کو اپنے اپنے دائرے میں رہنا چاہیے تو سب سے مشکل مرحلہ ان سب کے لیے وہی ہوگا جو چوہوں کے ساتھ بلی کے حملوں سے بچنے کے لیے تھا۔ ان کی تجویز تھی کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے۔ جوں ہی وہ قریب آئے گی چوہوں کو پتا چل جائے گا کہ بلی آرہی ہے۔ بس مسئلہ اس وقت بھی یہی تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔