ورلڈ کپ سے بڑی کامیابی

619

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھارت میں ہونے والے کرکٹ کے عالمی کپ ٹورنامنٹ میں پاکستان کی شرکت کے بارے میں حکومت پاکستان سے رہنمائی مانگی ہے کیوں کہ بھارت میں کرکٹ ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہے خط میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ بھارت میں کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستان کی شرکت کے بارے میں پاکستان کی کیا پوزیشن ہے۔ ہمیں کن بھارتی شہروں میں میچ کھیلنا ہے اور کن شہروں میں نہیں کھیلنا ہے۔ پاکستان کے میچز حیدرآباد، احمد آباد، بنگلور، چنئی اور کولکتہ جبکہ پاکستان نے ممبئی میں میچ کھیلنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ سیمی فائنل کوالیفائی کرنے کی صورت میں پاکستان ممبئی کی جگہ کولکتہ میں میچ کھیلنا چاہے گا۔ اس سے قبل بھی پاکستانی سیکورٹی ٹیم 2016ء میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے موقع پر بھارت گئی تھی اور دھرم شال کا میچ کولکتہ منتقل کیا گیا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی مجبوری یہ ہے کہ اسے اس معاملے میں حکومت پاکستان کی اجازت لازماً لینی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو کرکٹ بورڈ سے لے کر حکمرانوں تک کسی کو بھارت کی مسلم کش پالیسی اسلام دشمن اور کشمیر میں مظالم سے کوئی سروکار نہیں، اگر صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانی آبادی کے محاصرے کی بنیاد پر اور اقلیتوں پر مظالم اور ان کے خلاف نفرت انگیز واقعات کی بنیاد پر پاکستان ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کرے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ٹیم کی سیکورٹی اور تحفظ کوئی بہانہ نہیں ہے۔ بھارت کی مسلم دشمن پالیسیاں اصل خرابی ہیں ان پالیسیوں کے خلاف بھارت میں تو آواز اٹھ رہی ہے لیکن پاکستانی حکمران آج کل اپنے ہی سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینے میں مصروف ہیں پھر بھارت سے کون لڑے۔

جہاں تک عالمی کپ جیت کر ریکارڈ قائم کرنے کے دعوے کا تعلق ہے تو پاکستان کرکٹ کے کار پردازوں نے تو ہمیشہ ہر ورلڈ کپ سے قبل ایسے ہی دعوے کیے ہیں۔ کروڑوں روپے اشتہاری مہمات پر لگا دیے جاتے ہیں، ہم جیتیں گے ہاں جیتیں گے، ہر میدان میں جیتیں گے اور قسم قسم کے گانے ریلیز کیے جاتے ہیں لیکن ہارتے ہیں تو تاش کے پتوں کی طرح پوری ٹیم بکھر جاتی ہے۔ کاغذ پر ٹیم جیسی بھی ہو میدان میں کچھ اور معاملہ ہوتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو حکومت سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھا کہ کن شہروں میں کھیلا جائے اور کن شہروں میں نہیں، بلکہ یہ پوچھنا چاہیے کہ جس ملک میں گائے کا گوشت کھانے پر قتل کردیا جاتا ہو، برقع پہننے پر حملہ کیا جاتا ہو، مسجدوں کو مسمار و شہید کردیا جاتا ہو، اسکولوں میں زبردستی وندے ماترم پڑھایا جاتا ہو، جو ملک پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر قابض ہو اور کئی دہائیوں کو ہڑپ کرچکا ہو جس نے پاکستان دو لخت کرنے میں بھی بھرپور سازش کی اور کامیاب رہا۔ کیا پاکستان اس ملک میںکھیلنے کے لیے اپنی ٹیم بھیجے۔ اور اگر کوئی بھی غیرت مند حکمران ہوگا تو ان سوالوں کے جواب میں اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہوگا کہ ایسے ملک میں ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان کو ایسا کرنا چاہیے بلکہ بھارت ان ساری خرابیوں کے باوجود پاکستان پر جھوٹے الزامات لگاکر پاکستان میں کھیلنے سے انکار کرتا رہا ہے اور نہیں کھیلتا۔ اب ایک مرحلہ آئے گا کہ اگر پاکستان نے آئی سی سی کو یہ خط لکھا کہ پاکستان فلاں فلاں شہروں میں نہیں کھیلنا چاہتا تو کیا پاکستان کی اسی طرح مانی جائے گی جس طرح بھارت کی مان لی جاتی ہے اس کی مرضی سے دبئی کو نیوٹرل گرائونڈ قرار دے کر وہاں میچز ہو جاتے ہیں اور اس کو کبھی پاکستان اور کبھی بھارت کا گرائونڈ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسا گرہز نہیں ہوسکتا بھارت اربوں روپے کی سرمایہ کاری ورلڈ کپ میں ہوتی ہے۔ آئی سی سی اصول دیکھے گی یا پیسے؟ ان پیسوں کی خاطر تو ایسا شیڈول بنایا جاتا ہے کہ کسی طرح پاکستان اور بھارت سیمی فائنل یا فائنل تک پہنچیں، پاکستان کے پاس کیا ہے مضبوط سفارت کاری سے لے کر آئی سی سی میں مضبوط و مؤثر نمائندگی تک کے معاملے میں ہم ناکام ہیں۔ آئی سی سی کو بھارت تو ڈکٹیشن دے سکتا ہے لیکن پاکستان کی درخواستیں کسی کام نہیں آئیں گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ خوامخواہ یہ نہ کہے کہ ہم کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا چاہتے ہیں بھارت اگر کھیل کو سیاست کی وجہ سے خراب کرتا ہے تو پاکستان کو بھی اتنا ہی حق ہے۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ بھارت کی انسانیت سوز پالیسیوں اور جھوٹ کو بنیاد بناکر پاکستانی ٹیم بھی بھیجنے سے انکار کرے۔ زیادہ سے زیادہ ورلڈ کپ سے باہر ہوجائیں گے لیکن یہ ورلڈ کپ سے بڑی جیت ہوگی۔ کھیل کر تو ٹیم اور قوم میں خوب جزبات بھر کر ٹیم بکری بن کر آئوٹ ہوجاتی ہے پھر سٹے اور مال کی تحقیقات ہوتی ہے، الزامات لگتے ہیں اور اپنے ہی ہیرے کھلاڑیوں پر پابندی لگا کر دوسرے ملکوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ پاکستانی کرکٹ بورڈ کو خاموشی سے ورلڈ کپ میں شرکت کرنی چاہیے، کھیل کو کھیل رہنے دیا جائے۔ لیکن کوئی یہ بتائے گا کہ بھارت نے کھیل کو کب کھیل رہنے دیا وہ تو اسے مسلم کش فساد کا ذریعہ بھی بناتا ہے اور سیاست کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ ورلڈ کپ میں شرکت کرکے ہارنا زیادہ قرین قیاس ہے اور جیتنے کے امکانات اسی طرح ہیں جس طرح پاکستان کے ترقی کرنے کے ہوتے ہیں۔ تو کیوں نہ بھارتی نسل پرست پالیسیوں کے سبب بھارت میں ورلڈ کپ کے لیے نہ جانے کا اعلان کرکے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے لیے ورلڈ کپ سے بڑی کامیابی حاصل کرلیں۔