عبادت

955

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں فرمایا ہے کہ میں نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت انسانوں کی تخلیق کا اصل مقصد بھی ہے اور شعور کی بلند ترین سطح بھی۔ انسان زندگی میں ہزاروں چیزوں سے محبت کرتا ہے مگر وہ ہر چیز کو پوجتا نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت کی انتہا یہ ہے کہ انسان اسے پوجنے لگے۔ یعنی انسان، انسان سے بڑھ کر عبد بن جائے اور اس کی انسانیت، انسانیت سے آگے بڑھ کر عبدیت میں ڈھل جائے۔ مذہب کا شعور نہ رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ عبدیت زندگی کا محدود ہوجانا ہے۔ لیکن عبدیت زندگی کی بیکرانی، اتھاہ گہرائی اور بے پناہ شدت کا نام ہے۔ جس چیز کو زندگی کی حقیقی لذت کہا جاتا ہے وہ عبدیت کے دائرے ہی میں فراہم ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دراصل عبادت ہی وہ چیز ہے جو زندگی کی تعریف متعین کرتی ہے اور اس کی معنویت اور حسن و جمال کا تعین کرتی ہے۔
خدا کی موجودگی، اس کی خدائی اور اس معبودیت اتنی ظاہر ہے کہ اس کا شعور کسی نہ کسی درجے میں پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ چناں چہ سورج، چاند، ستارے اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ پرندے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور قرآن مجید میں آیا ہے کہ بعض پتھر خوف خدا سے گر جاتے ہیں۔ انسان پتھروں کو بے جان سمجھتے ہیں اور وہ زندگی کی دوسری صورتوں اور سطحوں کے مقابلے میں بے جان ہیں بھی۔ مگر پتھروں میں بھی ایک درجے میں شعور حق موجود ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر پتھروں میں بھی شعورِ حق موجود ہے تو انسانوں میں کس حد تک عبدیت کو جلوہ گر ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ پتھروں کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لیے پیدا نہیں کیا۔ مگر انسانوں کو تو پیدا ہی عبادت کے لیے کیا گیا ہے۔ چناں چہ ان کے اندر شعورِ حق کو اتنا راسخ ہونا چاہیے کہ وہ حق کا مظہر بن جائیں۔ رسول اکرمؐ کے بارے میں آیا ہے کہ آپؐ کی رسالت اتنی قوی تھی کہ آپؐ چہرے سے بھی نبی معلوم ہوتے تھے۔ سیدنا موسیٰؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب آپ پہلی بار حق تعالیٰ سے کلام کرکے پہاڑ سے نیچے اُترے تو آپ کے ایک ساتھی نے آپ کا چہرہ دیکھا تو کہا کہ یہ وہ چہرہ ہے جس نے گویا خدا کو دیکھ لیا ہے۔ مگر شعور حق کا انجذاب اور اس کا اظہار عبادت ہے اور یہ چیز انسان کے عبد بنے بغیر ممکن نہیں۔
غور کیا جائے تو شعور عبدیت کی چار بنیادیں ہیں۔
(1) ضرورت
(2) خوف
(3) رغبت
(4) محبت
ضرورت کا مفہوم یہ ہے کہ عبد معبود سے اس لیے تعلق قائم کرتا ہے کہ اس کا معبود اس کی ضروریات پوری کرتا ہے اور یہ سر تا پا ایک جائز تعلق ہے۔ اس لیے کہ اس کائنات میں خدا کے سوا کوئی نہیں جس سے ضروریات پوری کرنے کے لیے رجوع کیا جائے۔ بلاشبہ انسان بھی انسان کی ضرورت پوری کرتے ہیں مگر اس کی صلاحیت اور اہلیت بھی خدا ہی نے ان کے اندر رکھی ہوئی ہے۔ خدا خود اس بات کو پسند کرتا ہے کہ بندہ ضرورت کے وقت خدا سے رجوع کرے۔ چناں چہ خدا نے کہا ہے کہ اگر تمہیں جوتے کا تسمہ بھی درکار ہو تو مجھ سے مانگو۔ مگر ضرورت کا تعلق اپنی اصل میں افادی ہے اور یہ تعلق کی پست ترین سطح ہے۔ اس سطح کے پست ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس سطح پر انسان ضرورت کے زیر اثر ہوتا ہے اور جو انسان ضرورت کے زیر اثر ہوتا ہے وہ صرف اپنے فائدے کے لیے خدا سے رجوع کرتا ہے۔
خدا اور انسان کے درمیان تعلق کا دوسرا بڑا محرک خوف ہے۔ بعض انسانوں کی فطرت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہ صرف خوف سے متحرک ہوتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جہاں رحمن اور رحیم ہے وہیں وہ جبار اور قہار بھی ہے۔ اس نے ضلالت اور گمراہی میں مبتلا ہونے والوں کے لیے جہنم اور اس کا عذاب تیار کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے انسان کو اس لیے بھی خوف کھانا چاہیے کہ ہماری ہر بات خواہ وہ پوشیدہ ہو یا دل کا راز ہو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سریع الحساب بھی ہے۔ یہ تمام حقائق بجا طور پر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرتے ہیں۔ اور بلاشبہ خوف کا تعلق بھی جائز ہے مگر اس کا درجہ ضرورت کے درجے سے ذرا سا ہی بلند ہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو خوف کا تعلق دراصل ضرورت کے تعلق کی توسیع یا اس کا دوسرا رخ ہے۔ ضرورت کے دائرے میں انسان فائدے کے لیے خدا سے رجوع کرتا ہے اور خوف کے دائرے میں خدا کے ضرر سے بچنے کے لیے خدا سے رجوع کیا جاتا ہے۔
خدا کے ساتھ تعلق کی تیسری بنیاد رغبت ہے۔ اور قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جنت کا بیان دراصل رغبت کو پیدا اور متحرک کرنے کے لیے آیا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو جنت کی رغبت کی چار بڑی بنیادیں ہیں۔ ایک یہ کہ جنت قرب الٰہی کا مظہر ہے اور جنت کی سب سے بڑی نعمت دیدار الٰہی ہوگا جو کسی کو مہینے میں ایک بار میسر ہوگا۔ کسی کو ہفتے میں ایک بار اور کسی کو روزانہ۔ جنت کی رغبت کی ایک بنیاد یہ ہے کہ دنیا کا ناممکن جنت میں ممکن ہوجائے گا۔ جنت کی رغبت کا ایک سبب یہ ہے کہ جنت کی زندگی اور اس کی ہر چیز جمال الٰہی کا کامل ترین مظہر ہوگی اور انسان میں جمال کی طلب اس کے عقلی تقاضوں سے ہزار گنا زیادہ شدید ہے۔ جنت کی رغبت کی ایک بنیاد جنت کی زندگی کا دائمی یا بے انتہا طویل ہونا ہے۔ چناں چہ جو شخص جنت کی رغبت کی وجہ سے خدا کی عبادت کرتا ہے وہ بالکل ٹھیک کرتا ہے اور تعلق کا یہ درجہ ضرورت اور خوف کے درجے سے بہت بلند ہے۔ لیکن خدا کے ساتھ تعلق کا سب سے بلند درجہ محبت ہے۔ یعنی انسان خدا کی عبادت ضرورت، خوف اور رغبت کی وجہ سے نہ کرے بلکہ صرف اس لیے کرے خدا ان تمام چیزوں سے قطع نظر بھی عبادت کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کہ وہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے اور سب سے زیادہ جمال اس عمل میں ہوتا ہے جو محبت کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اسلام میں عبادت کا سب سے بڑا مطہر نماز ہے اور نماز کے بارے میں رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم سے کم اس طرح پڑھو گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ غور کیا جائے تو دونوں صورتوں میں خدا کی موجودگی کا شعور ہی اصل چیز ہے۔ نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا جس نے چالیس دن تک نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھی اسے جہنم اور منافقت سے نجات عطا کردی جاتی ہے۔ نسائی کی حدیث ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا کہ مجھے دنیا کی دو چیزیں محبوب ہیں عورت اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا سے محبت کا مطلب ضرورت، خوف اور رغبت کے تقاضوں کا انکار ہے۔ ایسا نہیں ہے، محبت کا مطلب ان تقاضوں سے بلند ہوجانا ہے۔ یہ روحانی، اخلاقی، ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور تہذیبی ارتقا کا ایک اصول ہے۔
عبادت اس اعتبار سے ایک انقلابی تصور ہے کہ عبادت انسان کو آزادی عطا کرنے والی چیز ہے۔ اقبال نے عبادت کے اس پہلو کو بیان کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
انسانوں کی زندگی جھوٹے خدائوں اور ان کی پوجا سے بھری ہوئی ہے۔ کتنے انسان ہیں جو اپنی انا کے اسیر ہیں۔ کتنے انسان ہیں جنہوں نے اپنے نفس کی خواہشوں کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو طاقت کے خدائوں کو پوج رہے ہیں۔ سیدنا ابراہیمؑ کے دور میں نمرود کو اس کی طاقت کی وجہ سے ہی پوجا جارہا تھا۔ سیدنا موسیٰؑ کے دور میں فرعون کو اس کی طاقت ہی خدا بنائے ہوئے تھی۔ ہمارے زمانے میں امریکا اور سوویت یونین کو ان کی طاقت ہی کی وجہ سے پوجا گیا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو دولت کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ دولت کے لیے ایمان ترک کرسکتے ہیں، مذہب چھوڑ سکتے ہیں، ماں باپ، بیوی، شوہر اور بچوں کو ترک کرسکتے ہیں۔
لیکن جب انسان حقیقی خدا کی عبادت کرنے لگتا ہے اور عبادت اس کا ’’شوق‘‘ اور ’’ذوق‘‘ بن جاتی ہے تو انسان کو ہزاروں جھوٹے خدائوں کے آگے سجدہ ریز ہونے کی ذلت سے نجات مل جاتی ہے۔ لیکن ہمارے زمانے کے اعتبار سے عبادت کا مسئلہ صرف یہی نہیں ہے کہ انسان ہزاروں چھوٹے چھوٹے خدائوں کی پرستش میں لگے ہوئے ہیں بلکہ ہماری عہد کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے عبادت کو نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ تک محدود کرلیا ہے۔ لیکن عبادت کا مفہوم پوری زندگی پر محیط ہے۔ یعنی اسلام یہ نہیں چاہتا کہ نماز پوری زندگی سے کٹی ہوئی ایک سرگرمی بن کر رہ جائے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان کی پوری زندگی ہی نماز بن جائے۔ وہ سیاست کررہا ہو تو عبدیت کے تقاضے پورے کررہا ہو، وہ معاش کما رہا ہو اور ملک کے لیے معاشی نظام تجویز کررہا ہو تو اللہ کی کبریائی کا اعلان، نفاذ اور عبدیت کا قیام اس کے پیش نظر ہو۔ یہاں تک کہ اس کے ذاتی تعلقات بھی عبدیت کی علامت بن جائیں۔ جب ایسا ہو جاتا ہے تو نماز، معیشت اور سیاست کیا شوہر اور بیوی کے تعلقات یہاں تک کہ سونا اور جاگنا بھی عبادت بن جاتا ہے۔