جماعت اسلامی بنگلادیش، سیلاب بلاخیز

1260

کوئی ایک لیڈر صرف گرفتار نہیں ہوا تھا بلکہ پوری جماعت پر پابندی لگادی گئی تھی۔ ظالمانہ حکمرانی نے ظالمانہ فیصلہ سنایا کہ جماعت اسلامی بنگلادیش پر دس سال کے لیے پابندی لگادی گئی ہے۔ لیڈروں کو جیل بھیج دیا گیا، متنازع ٹربیونل کے تحت موت کی سزائیں دی جانے لگیں۔ ایک کے بعد ایک رہنما کو جیل میں پھانسی کی سزا سنائی گئی سزائوں پر عمل درآمد بھی ہوا۔ کئی رہنما جیل میں طبعی موت ہی مرگئے۔ ووٹوں، ارکان، کارکنان اور سابق انتخابات میں سیٹوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معمولی جماعت نہیں تھی اس کے رہنما پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی اور دوسرے اگر ایک آواز لگادیں۔ ’’چولبے نا‘‘ تو پورا بنگلادیش جام ہوجاتا تھا۔ لیکن چشم فلک نے یہ منظر دیکھا اور خوب دیکھا کہ پورے بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی گرفتاریوں پر ایک تنکا بھی نہیں توڑا گیا۔ ایک فائر نہیں کیا گیا تمام گرفتاریاں یکطرفہ جاری رہیں سزائیں ملتی رہیں مردانِ درویش پھانسی کے پھندوں کو چومتے رہے شہادت قبول کرتے رہے لیکن کسی نے نہیں کہا کہ شدید ردعمل آئے گا ایک کے بعد ایک پھانسی پر بھی یہی کہتے رہے کہ: ’’ہم اللہ کے لیے ہیں اور اس کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔
وہ اس زمین کے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر انسانوں کے ربّ کی غلامی میں دینے کی جدوجہد کررہے تھے۔ کسی سے موازنہ نہیں، جماعت اسلامی کا کسی سے موازنہ ہو بھی نہیں سکتا وہ اللہ کی رضا کی خاطر جیتے ہیں اور اُسی کی رضا کی خاطر مرتے ہیں انہوں نے ثابت کیا اور گزشتہ دس سال میں بار بار ثابت کیا کہ میرا جینا اور مرنا اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔ دس سال کی سختیاں، جیلیں، جائدادوں کی ضبطی، تشدد سب کچھ ہوا۔ یہ لوگ پھانسیوں کے پھندے تو چوم گئے لیکن اپنی منزل نہیں بھولے۔
جماعت اسلامی کو گرفتاریوں کے خلاف ایک آڈیٹوریم میں مظاہرے کی اجازت ملی تو دس سال بعد جماعت اسلامی (متحدہ) پاکستان کی یاد آگئی۔ ہم نے وہ نہیں دیکھا تھا لیکن اب سمجھ میں آیا کہ کیا ہوا ہوگا۔ جس روز پاکستانی عدالت نے جماعت اسلامی پر پابندی کو غیر قانونی قرار دیا اگلے روز پورے ملک میں دفاتر کھل گئے، تمام کارکنان اپنی اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوگئے۔ تمام سرگرمیاں معمول کے مطابق اس طرح شروع کردیں جیسی پہلے سے کرتے آرہے ہوں اور ایک دن کا بھی ناغہ نہ ہوا ہو۔ امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی کو بھی ملٹری کورٹ کا سامنا کرنا پڑا یکطرفہ مقدمہ چلا یکطرفہ فیصلہ سنایا گیا کہ پھانسی کی سزا ہوگئی ہے اور مولانا صرف اتنا کہہ کر چل پڑے کہ اگر اللہ نے میری موت کا فیصلہ کردیا ہے تو وہ آجائے گی اور اگر اس نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے تو پوری حکومت الٹی لٹک جائے میرا بال بھی بیکا نہ کرسکے گی اور ایسا ہی ہوا۔ لیکن اگر آج دیکھا جائے تو ہتھکڑی کو زیور کہنے والے جیل کو سسرال کہنے والے جب سچ مچ پکڑے گئے تو بلک بلک کر رو رہے تھے۔ جب تیرا باپ بھی دے گا آزادی کے نعرے لگانے والے پولیس کو دیکھ کر دوڑیں لگا رہے تھے۔ جب حقیقی آزادی کے لیے جان دینے کا عزم کرنے والے دوسروں کو بزدل گیدڑ کہنے والے پر ایک مشکوک حملہ ہوتا ہے تو وہ چھے ماہ کے لیے گھر بیٹھ جاتا ہے اور ایک ایک دن کی گرفتاری کے بعد سب کے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوجاتے ہیں۔ اپنی پرانی پارٹی میں واپس جانے کے بجائے نئی پارٹی میں چلے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی بنگلادیش کے امیر شفیق الرحمن جیل میں ہیں ان سب پر پاکستان سے وفاداری کا الزام ہے۔ نائب امیر جماعت سید عبداللہ طاہر کی ساری جائداد حسینہ واجد نے ضبط کر رکھی ہے لیکن ان اللہ کے شیروں کے پائوں متزلزل نہیں ہوئے۔ اس مظاہرے کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان میں پابندی کے خاتمے کی طرح ڈھاکا کی سڑکیں غائب ہوگئیں وہاں صرف انسانی سر نظر آرہے تھے۔ یہ محض سر ہی سر نہیں تھے ان سروں میں سودا بھی سمایا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے جلوس دیکھے ہیں ان کو اندازہ ہوگا کہ جماعت اسلامی کیا ہے۔ اس جماعت نے عین اس وقت جب بنگلادیش میں فوج مارشل لا لگانے کا ارادہ رکھتی تھی خالدہ ضیا کی حکومت بنوادی تا کہ فوج مداخلت نہ کرسکے۔ اس کا غم حسینہ واجد کو بہت زیادہ تھا اور اس کا بدلہ اس نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد لیا۔ لیکن جماعت اسلامی بنگلادیش نے تمام اسلامی تحریکوں کے لیے پیغام دیا ہے کہ حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں حق کا دامن تھامے رکھنا ہے اور منزل کھوٹی کرنے والا کوئی کام نہیں کرنا۔ ڈھاکا میں دس جون کے مظاہرے کے بعد جلسے کے 60 منتظمین کو بھی پکڑ لیا گیا۔ مظاہرے کی تصویر اور ویڈیو دیکھ کر لوگوں نے یہ سمجھا یا یہ خبر اُڑا دی کہ جماعت اسلامی بنگلادیش پر سے پابندی ہٹالی گئی ہے۔ پابندی آج نہیں تو کل ہٹے گی اور جماعت اسلامی اپنی موجودگی ثابت کرے گی۔ لیکن اس چھوٹی سی جھلکی نے حسینہ واجد اور بنگلادیش حکومت کی نیندیں حرام کردی ہیں کہ اگر پابندی ہٹی تو جماعت اسلامی کیا کرے گی۔ اور اب شاید پابندی ہٹے یا نہ ہٹے یہ سیلاب بلاخیز روکے نہ رکے گا۔ اس کی وجہ شاید یہی ہوگی کہ جماعت اسلامی بنگلادیش کسی باجوہ، کسی فیض کسی اسٹیبلشمنٹ اور کسی خلائی مخلوق پر انحصار نہیں کرتی اس کا تعلق ربّ سے اور اس کے بندوں سے ہے اور یہی تعلق سب سے مضبوط ہے۔