بجٹ: دولت اور اقتدار کا گٹھ جوڑ

1267

پاکستان اِس وقت سخت معاشی بحران ہی سے نہیں گزر رہا ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی اس کا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس وقت عوام کو بجٹ اور معیشت کے اعدادو شمار سے معمولی دلچسپی بھی نہیں ہے، وہ تو اپنی روز کی دال روٹی کی فکر میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ ملک کس طرح چل رہا ہے اور کون چلا رہا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کا ڈنڈا مستقل سر پر ہے، ایسے میں مالی سال 2023-24ء کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے جسے انتخابی بجٹ کہنا غلط نہ ہوگا۔ بجٹ میں موجودہ اخراجات کا 50 فی صد سے زیادہ قرض کی ادائیگی پر مشتمل ہے۔ بجٹ کا ایک اہم پہلو دفاعی بجٹ میں 13 فی صد اضافہ ہے جس کے لیے 18 کھرب 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اگرچہ مضبوط دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنا ضروری ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اتنا بڑا اضافہ کیوں ضروری تھا، خاص طور پر سنگین معاشی صورتِ حال کے پیش نظر؟ عام انتخابات کے لیے 48 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ میں 223 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کیے گئے ہیں اور محصولات کی وصولی کا بڑا حصہ انکم ٹیکس کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا ہے اور کم از کم اْجرت 32ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بظاہر یہ خوب صورت اعدادو شمار ہیں لیکن ابھی آئی ایم ایف کی منظوری شامل ہونا باقی ہے اور بہت سی باتیں سامنے آنا ضروری ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ اس بجٹ پر آئی ایم ایف کی رضا مندی حاصل کرنا مشکل ہے۔ حالیہ بجٹ پر کراچی سمیت ملک بھر کی تاجر برادری کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے۔ اْن کا کہنا ہے کہ حکومت کا 9200 ارب روپے کا ٹیکس ہدف نہ صرف مشکل دکھائی دیتا ہے بلکہ اس کے منفی نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ کراچی چیمبر لا کا کہنا ہے کہ بجٹ کے اصل خدوخال چند دن میں سامنے آئیں گے۔ حکومت نئے ٹیکس لگا رہی ہے اور ساتھ ہی ٹیکس حجم میں بھی اضافہ کررہی ہے، جبکہ نئے ٹیکس گزاروں اور ٹیکس نیٹ میں کوئی نیا اضافہ دکھائی نہیں دیتا، اس کا مطلب ہے کہ موجودہ ٹیکس نیٹ میں پہلے سے شامل لوگوں پر ہی بوجھ ڈالا جائے گا۔ کراچی سے 5200 ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے اور پورے پاکستان کو سنا کر صرف 17ارب کی معمولی سی رقم کراچی کو دی جارہی ہے۔ ملک میں بدترین معاشی صورت حال ہے، تاریخی مہنگائی ہے، لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، غیر معمولی حالات میں ایک غیر معمولی بجٹ ہونا چاہیے تھا تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہوسکے، مگر ایسا نہ ہوا۔ اس بجٹ میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے صحافیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس متعارف کراتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ انہیں صحت کارڈز جاری کیے جائیں گے۔ لیکن یہ کتنی مالیت کے ہوں گے، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ کراچی پریس کلب کے صدر سعید بازی، سیکرٹری شعیب احمد اور اراکین مجلس ِ عاملہ نے وفاقی بجٹ میں صحافیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کی رقم مختص کرنے کو صحافی دوست فیصلہ قرار دیا ہے، لیکن ساتھ ہی کے یو جے دستور نے مطالبہ کیا ہے کہ مختلف اداروں میں اشتہارات کے واجبات کو ملازمین کی تنخواہ اور واجبات کی مکمل ادائیگی سے مشروط کیا جانا چاہیے، واجبات اْن اداروں کو ادا کیے جائیں جو صحافیوں کو بروقت تنخواہ جاری کرتے ہیں، اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ میڈیا اداروں میں کم سے کم تنخواہ کی مقرر کردہ حد پر عمل درآمد ہو۔
بجٹ سے قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کردہ اقتصادی جائزہ ملک کی معاشی ترقی کی انتہائی تاریک تصویر پیش کرتا ہے۔ فی کس آمدنی، برآمدات، ترسیلاتِ زر، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور دیگر کئی شعبوں میں کمی آئی ہے۔ قومی خزانے پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھ گیا ہے اور غربت اور مہنگائی بڑے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ان چیلنجوں کے ساتھ رواں مالی سال میں اقتصادی ترقی کی شرح صرف 0.29 فی صد رہی جو گزشتہ مالی سال میں 6.1 فی صد تھی۔ زرعی شعبے کی شرح نمو بھی 4.27 فی صد سے 1.55 فی صد تک گر گئی ہے۔ یہ تشویش کا باعث ہے، کیونکہ زراعت معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے اور لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آئندہ برس پاکستان کو سودی قرضوں کی مد میں 7 کھرب 303 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے جو 14.46 ٹریلین کے مجموعی بجٹ کا 55 فی صد اور گزشتہ مالی سال کے سودی قرضوں میں 85 فی صد اضافہ ہے، وزیرخزانہ نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے سودی بجٹ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کا 9200 ارب کا ٹیکس ریونیو حاصل کرنے کا دعویٰ سراسر ہوائی ہے، ایف بی آر ٹیکس میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 23فی صد اضافہ ہوا ہے، گزشتہ مالی سال میں ساڑھے 5 ہزار ارب کے قریب ٹیکس جمع کیے گئے، حکومت کے پاس ٹیکس جمع کرنے کا کوئی بہتر میکنزم نہیں ہے، غریب عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ آمدن پر ٹیکس لگایا جائے اور زکوٰۃ و عشر کا نظام متعارف کرایا جائے۔ عوام حکمرانوں پر اعتبار نہیں کرتے، انہیں خوف ہے کہ ان کا پیسہ کرپشن کی نذرہوجائے گا‘‘۔ ایک اور روایتی بجٹ اپنی جگہ، لیکن آج وطن ِ عزیز جس حالت میں ہے اس کی وجہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے درست بتائی ہے کہ ’’پاکستان کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی، سابقہ و موجودہ حکمرانوں، سیاست دانوں، تاجروں، صنعت کاروں، علماء، عدالتوں، اسلامی نظریاتی کونسل، شرعی عدالتوں… ان سب کا دولت اور اقتدار کا گٹھ جوڑ ہے اور یہی برسوں سے اس ملک میں چل رہا ہے، بس اس میں اضافہ اس چیز کا ہوا ہے کہ بیرونی اشرافیہ کا ملکی اشرافیہ سے گٹھ جوڑ ہوگیا ہے۔ مختصر یہ کہ جیسا کہ نوم چومسکی نے بھی کہا ہے کہ ’’امریکا نے پاکستان کے حکمرانوں کو خریدا ہوا ہے‘‘۔ ایسے میں یہ بجٹ بس الفاظ کا گورکھ دھندہ ہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح حکمرانوں نے زبانی دعوے تو بہت کیے ہیں لیکن عملی طور پر وہ ڈیلیور نہیں کرسکے ہیں۔ یہ بجٹ پاکستانی معیشت کی ابتر حالت کی ایک بدصورت تصویر پیش کرتا ہے۔ حکومت کو قرضوں کے بحران سے نمٹنے، معاشی ترقی کو فروغ دینے اور مہنگائی اور غربت میں کمی کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں‘‘۔ یہ ایک اچھی خواہش ہے لیکن اس کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت نہ موجودہ حکومت کے بس میں ہے اور نہ آنے والے حکمرانوں سے موجودہ جبر کے ماحول میں اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں سیاسی استحکام کے لیے فوری انتخابات کی ضرورت ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضرورت اس بات کی ہوگی کہ یہ بااختیار اور آزاد سیاسی قوتوں کی حکومت ہو تاکہ وہ جامع منصوبہ بناکر قرضوں کے بوجھ، مہنگائی اور غربت سمیت مسئلے کی بنیادی وجوہات کو حل کرسکیں، ورنہ دور دور تک اس قوم کے حالات بدلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ویسے بھی خدا اْن قوموں کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہتی ہوں۔ اس وقت ضرور اس امر کی ہے کہ قوم جاگے اور اپنے اور قائد کے خواب کو پورا کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں اٹھ کھڑی ہو۔ راستہ ایک ہی بچا ہے، دوسرا کوئی راستہ نہیں۔