پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کے بعد

712

حالیہ ہفتوں کے واقعات نے ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ پی ٹی آئی اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ انتہا کو پہنچ گئی ہے اور پی ٹی آئی کو بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے۔ اسد عمر، پرویز خٹک عمران اسماعیل، علی زیدی، عثمان بزدار، خسرو بختیار، فواد چودھری، ڈاکٹر شیریں مزاری اور عامر کیانی سمیت کئی اہم رہنما اور سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور بہت سے نکلنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ 9 مئی 2023ء کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے باغی بن کر اپنے ہی سلیکٹرز کو للکار دیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کو شدت کے ساتھ جوابی وار کا جواز فراہم کردیا۔ تحریک انصاف کے کئی ہزار حامیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور شنید ہے کہ ان میں سے کچھ پر فوجی اور کچھ پر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ سول عدالتوں کی بدولت پی ٹی آئی کے بڑے رہنماؤں کو ریلیف تو مل رہا ہے اور وہ پریس کانفرنس کرکے پوتر ہو رہے ہیں لیکن کارکنوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ اب عمران خان کی سیاسی قسمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی کب تک اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کو برداشت کرسکتی ہے۔
عمران خان نے کچھ سال قبل بڑے تکبر سے کہا تھا کہ ’’ہم اسٹیبلشمنٹ کے لیے واحد انتخاب ہیں‘‘ لیکن آج کھیل بدل گیا ہے۔ عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے مفاہمت کے تمام دروازے بند کردیے ہیں اور اتحادی حکومت بھی مذاکرات سے انکاری ہے۔ عمران خان کو یقین تھا کہ قوت کا مظاہرہ کرکے وہ طیب اردوان کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیں گے۔ اْنہوں نے براہ راست پہلے ڈی جی (سی) اور پھر سپہ سالار کو ہدف بنایا اور الزام لگایا کہ اقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لے اْن کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اْنہوں نے اپنی تقریروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے کارکنوں کو یہ یقین دلایا کہ مقتدر حلقوں میں اْن کی بہت بڑی سپورٹ موجود ہے۔ جس سے کارکنوں کی توقعات اور جذبات بھڑک اْٹھے۔ 9 مئی 2023ء کے پْرتشدد مظاہروں، فوجی تنصیبات پر حملوں، وسیع پیمانے پر پْرتشدد کارروائیوں اور خاص طور پر شہد فوجیوں کی یادگاروں کی توڑ پھوڑ نے اعلیٰ مقتدر حلقوں میں شدید ردعمل پیدا کردیا اور سیکورٹی اداروں کو پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف زبردست کارروائی کا موقع مل گیا۔ سیکڑوں رہنماؤں اور ارکان اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز نے پارٹی چھوڑ دی۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مجبوراً عمران خان نے کئی دن بعد چھانیوں پر حملوں کی مذمت کردی لیکن اسٹیبلشمنٹ، جو کچھ ہوا، اْسے فراموش کرنے کو تیار نہیں ہوئی۔ آئی ایس پی آر نے 9 مئی 2023ء کے واقعات کو ملکی تاریخ کا ’’سیاہ باب‘‘ قرار دیا۔
عراان خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان شدید محاذ آرائی نے پی ڈی ایم ؍پی پی پی کے حکمران اتحاد کو سہارا دیا ہے۔ پی ڈی ایم؍ پی پی پی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی وسیع میڈیا مہم نے پی ٹی آئی کو نہ صرف بیک فٹ پر کھڑا کر دیا بلکہ اب پی ڈی ایم کی پوری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کو دہشت گرد گروپ قرار دے کر پابندی لگا دی جائے یا کم از کم عمران خان کو انتخابی میدان سے نکال باہر کیا جائے۔ ماضی میں مائنس ون فارمولے کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ جوکامیاب نہ ہوسکیں لیکن عمران خان نے بھی اپنی سیاست کا خود خاتمہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اْن کے بدلتے بیانیے اْن کی ساکھ پر سوالات اْٹھاتے رہے ہیں۔ وہ اپنی حکومت کی برطرفی کے لیے امریکی سازش کے دعویٰ سے توبہ تائب ہو چکے ہیں۔ اب وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکی قانون سازوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ پارٹی تو شاید ختم نہیں ہوسکتی البتہ پی ٹی آئی کی صفوں میں حوصلے پست ضرور ہوئے ہیں۔ متوسط طبقے میں حمایت کے باوجود پی ٹی آئی سختی برداشت نہیں کر پارہی۔ عمران خان کی سیاست نے جمہوری عمل کو اتنا کمزور کردیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط ہوگئی ہے اور سول بالادستی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
جس چیز نے پی ٹی آئی اور عمران خان کی حالت زار کو مزید خراب کیا ہے وہ ماضی میں اْن کا اہم سیاسی جماعتوں سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنا اور اْن سے ہاتھ ملانے سے انکار کرنا ہے۔ آج اْن کے لیے کوئی جمہوری اور سیاسی قوت آنسو بہانے کے لیے تیار نہیں۔ اپنے تکبر میں وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ جمہوری عمل کے ذریعے وہ اقتدار میں واپس آسکتے ہیں۔ وہ پی ڈی ایم حکومت کی ناقص پالیسیوں سے عوام کی ناراضی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن اپنی حکومت میں وہ سیاسی ومعاشی اصلاحات کرنے میں مکمل ناکام
رہے۔ پاپولزم کی اپنی حدود ہیں، جنہیں عمران خان کبھی سمجھ نہیں پائے۔ عمران خان نے بیک وقت سیاسی حریفوں اور اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا جس کی قیمت آج انہیں ادا کرنی پڑ گئی ہے۔ پارٹی جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچْکی ہے، اْس میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان حقیقت کی دنیا میں واپس آئیں گے اور اپنی جماعت کو دوبارہ منظم کر پائیں گے یا نہیں؟ قرائن اور ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ شاید وہ ایسا نہ کرسکیں۔ عمران خان کا 9 مئی کے واقعات کے ذمے دار کارکنان سے لاتعلقی کا اعلان اور ٹوٹ پھوٹ کے بعد پی ٹی آئی کے مخلص کارکن اپنے آپ کو بے یارو و مدگار محسوس کرتے ہیں۔ وہ ’’تبدیلی‘‘ اور ’’مدینہ کی ریاست‘‘ کا خواب دیکھتے تھے لیکن آج اْن کے خواب بکھرگئے ہیں۔ اْن کی اْمیدیں نا اْمیدی میں تبدیل ہو گئی ہیں لیکن موجودہ سنگین حالات میں پی ٹی آئی کے کارکن پارٹی کے تیتر بتر ہونے کے باوجود پی ڈی ایم اور پی پی پی میں شامل نہیں ہوں گے تاہم قیادت اور رہنماؤں کی لاتعلقی کے بعد پی ٹی آئی کے مایوس کارکنوں کے پاس یہ آپشن رہ گیا ہے کہ وہ امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی دعوت سے فائدہ اْٹھائیں اور مثبت سیاست کے ذریعے مدینہ کی اسلامی ریاست کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ جماعت اسلامی جمہوریت، آئین، قانون اور سول بالادستی، انسانی آزادیوں اور آزادی اظہار رائے اور صاف شفاف وغیر جانبدارانہ انتخابات کی بات کرتی ہے اور اْن کا ماضی بھی بے داغ ہے اس لیے جماعت اسلامی میں شامل ہو کر وہ پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست بنا سکتے ہیں۔