عوام اور فوج میں دراڑیں کون ڈال رہا ہے؟

639

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بالواسطہ طور پر ملک کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دشمن عوام اور فوج کے درمیان دراڑیں ڈال رہا ہے لیکن فوج کو عوام کا اعتماد حاصل ہے اور وہ عوام کے تعاون سے اس صورت حال پر قابو پالیں گے۔ آرمی چیف کا یہ بیان سوچنے سمجھنے والوں کے لیے ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاک فوج جو ایک زمانے میں عوام کی آنکھ کا تارا تھی، آج اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، جلسوں میں فوج کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں، جرنیلوں کا نام لے کر انہیں گالیاں دی جارہی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر انہیں اقتدار سے سبکدوش کیا گیا تھا تو اس وقت بھی حاضر سروس آرمی چیف کا نام لے کر اُسے اس واردات کا ذمے دار قرار دیا گیا تھا اور مسلم لیگ (ن) نے اس کے خلاف خوب ہنگامہ برپا کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے احتجاج کچھ ایسا خلافِ واقعہ بھی نہ تھا۔ میاں نواز شریف کے خلاف جو کچھ ہوا وہ اس وقت کے آرمی چیف اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔ جن لوگوں نے اس فیصلے پر خوشیاں منائیں، انہیں اندازہ نہ تھا کہ کل یہ وقت ان پر بھی آسکتا ہے۔ چناں چہ عمران خان جب اقتدار سے نکالے گئے تو پہلے انہوں نے اسے امریکی سازش قرار دے کر عوام کو امریکا کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ جب وہ یہ چورن بیچ کر عوام کے محبوب لیڈر بن گئے تو اچانک انہوں نے پلٹا کھایا اور عوام کو بتایا کہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش سابق آرمی چیف نے تیار کی تھی اور وہی چوروں اور ڈاکوئوں کے گروہ کو قوم پر پھر مسلط کرنے کے ذمے دار ہیں۔ یہ بات بھی کچھ ایسی خلافِ واقعہ نہ تھی۔ چناں چہ سوشل میڈیا جس پر تحریک انصاف کے لوگوں کی اجارہ داری تھی، آرمی چیف کے خلاف گالیوں سے بھر گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین سے کرپشن کا پیسہ اُگلوانے میں تو ناکام رہے تھے۔ البتہ وہ اپنے سیاسی مخالفین پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کا لیبل چسپاں کرنے میں ضرور کامیاب رہے تھے اور عوام تیرہ جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کی حکومت کو چوروں اور ڈاکوئوں کی حکومت ہی سمجھتے ہیں۔ چناں چہ سابق آرمی چیف کے خلاف عمران خان کا نیا بیانیہ خوب کامیاب رہا۔ اس سے فوج کی بہت سبکی ہوئی۔
اب عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کے شدید ردعمل اور 9 مئی کو گھیرائو جلائو کے افسوسناک واقعات نے سارا منظرنامہ ہی بدل دیا ہے۔ عمران خان پہلے ان واقعات کی مذمت سے گریزاں تھے لیکن جب پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون شروع ہوا اور بلوائیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا اعلان کیا گیا تو خان صاحب کی عقل بھی ٹھکانے آگئی اور انہوں نے نہ صرف ان واقعات کی مذمت کی بلکہ ان سے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا اور دوسری بار گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر انہوں نے کارکنوں کو واضح طور پر پیغام دیا کہ وہ احتجاج ضرور کریں لیکن پرامن رہیں اور قومی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے اور نہ اس کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کارکنوں کی بڑی تعداد پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کو برگر فیملیز کے سپوت کہہ کر ان کا مذاق اُڑایا جاتا تھا۔ انہیں ملکی سیاست سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہ نوجوان اشرافیہ کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو انتخابات کے موقع پر ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر بھی بہت کم جاتا تھا۔ یہ کریڈٹ بہرکیف عمران خان کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس طبقے کو فعال کیا ہے اور اسے جمہوریت اور حقیقی آزادی کا خواب دکھایا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ یہ خواب سچا ہے یا جھوٹا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس خواب نے سیاست میں غیر معمولی سرگرمی پیدا کردی ہے اور ان لوگوں کے چہرے بے نقاب کردیے ہیں جو ملک پر جمود طاری رکھنا چاہتے ہیں۔ نوجوانوں میں سیاسی شعور کا آنا اور ظالمانہ نظام کے خلاف میدان میں نکلنا ایک بہت بڑا انقلاب ہے جس کا رُخ تخریب کے بجائے تعمیر کی جانب پھیرا جاسکتا ہے۔
9 مئی کو گھیرائو جلائو کے جو واقعات ہوئے اگرچہ ان میں پی ٹی آئی کارکنوں کی شرکت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا لیکن یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ان میں شرپسندوں کو پلانٹ کیا گیا تھا جنہوں نے تباہی پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پھر سارا ملبہ پی ٹی آئی کارکنوں پر ڈال دیا گیا کیونکہ ان کے خلاف کارروائی مقصود تھی۔ فیس بک پر کئی دن تک ایک ویڈیو گردش کرتی رہی جس میں ایک لمبا تڑنگا آدمی منہ پر کپڑا باندھے ہوئے لوہے کے راڈ سے پرائیویٹ گاڑیوں کو توڑ رہا ہے اور پس منظر میں یہ آوازیں گونج رہی ہیں کہ یہ پولیس والا ہے اسے پکڑو، جانے نہ پائے لیکن کوئی اسے پکڑنے کی جرأت نہ کرسکا۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا دور ہے اس میں کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔ اب جس بھونڈے اور پرتشدد انداز میں گرفتاریاں ہورہی ہیں، پی ٹی آئی کی ہامی خواتین کو بھی ظالمانہ طریقے سے پکڑا جارہا ہے حالانکہ وہ قوم کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کارکنوں کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ اس سے عوام میں مزید بے چینی پیدا ہورہی ہے، عوام دیکھ رہے ہیں کہ اس عمل میں اسٹیبلشمنٹ پوری طرح ملوث ہے اور عدالتیں انصاف دینے سے قاصر ہیں۔ ممتاز اینکر پرسن عمران ریاض کے معاملے میں لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب کو بار بار وارننگ دی لیکن وہ اسے عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔ آخر میں انہوں نے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کردیے کہ انہوں نے خفیہ ایجنسیوں سے بھی معلوم کرلیا ہے عمران ریاض ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ تو کیا اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ عوام برملا کہہ رہے ہیں کہ وہ اب کبھی بازیاب نہ ہوسکے گا اور اس کا حشر ارشد شریف سے مختلف نہیں ہوگا۔ معروف اینکر پرسن آفتاب اقبال کو بھی اٹھایا گیا تھا لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ انہیں پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا اب وہ اپنے ٹاک شو میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ کس ادارے نے انہیں پکڑا تھا انہیں کہاں رکھا گیا اور کیا پوچھا گیا۔
اس وقت سیاست میں شدید ہلچل برپا ہے، پی ٹی آئی میں شامل لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کروائی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کو چار بار گرفتار کیا گیا، بالآخر ان کے اعصاب جواب دے گئے اور پی ٹی آئی سے الگ ہونے اور سیاست کو خیر باد کہنے کا اعلان کردیا۔ اسد عمر ہوں، فواد چودھری ہوں یا پی ٹی آئی کے دوسرے بہت سے نامور لوگ، سب کی داستان یہی ہے۔ شاہ محمود قریشی عمران خان کا ساتھ چھوڑنے سے ہچکچا رہے ہیں اس لیے انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وہ سرنڈر نہیں کردیتے۔ یہ سب کچھ عوام کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور جو ادارہ یہ کام کررہا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ عوام اور فوج کے درمیان دشمن دراڑیں ڈال رہا ہے تو ہمیں یہ دشمن باہر تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر تلاش کرنا چاہیے۔ یہ دشمن ہمارے اندر چھپا بیٹھا ہے اور ہم سے وہ کام کروارہا ہے جو ہمیں نہیں کرنے چاہئیں۔