داخلی امور میں آئی ایم ایف کی مداخلت

1369

آئی ایم ایف کی جانب سے عوام کو کچلنے اور ان پر مالیاتی بوجھ ڈالنے والے تمام احکامات پر عمل درآمد کرنے اور آئندہ بھی تمام شرائط ماننے کی یقین دہانی کرانے کے باوجود بجٹ سے پہلے تحریری معاہدے کے مسودے پر ابتدائی دستخط بھی نہیں ہوسکے ہیں۔ وزارت خزانہ، وزیر خزانہ اور وزیراعظم کی جانب سے مسلسل اعلان ہوتا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگیا ہے اور اگلے دنوں میں دستخط ہونے ہی والے ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے بار بار اعلان کیے جانے کے باوجود ابھی تک عملدرآمد کی صورت نظر نہیں آسکی۔ وزارت خزانہ کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے جاری کردہ بجٹ کی تفصیلات بھی آئی ایم ایف کو فراہم کردی گئی ہیں، اس کے باوجود آئی ایم ایف کے نمائندوں کی جانب سے منظوری کا اشارہ بھی نہیں مل سکا ہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے براہ راست آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا جادھیوا سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اس بات چیت میں وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش پاشا بھی شامل تھیں جو وزارت خزانہ میں بجت سازی کی ٹیم کی نگرانی بھی کررہی ہیں۔ اس گفتگو کے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد میں آئی ایم ایف مشن کے مقامی سربراہ ناتھن پورٹر نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بجٹ کے بارے میں آئی ایم ایف کی شرائط بیان کرتے ہوئے خاص طور پر پاکستان کی داخلی سیاسی صورتھال پر بھی تبصرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ آئی ایم ایف سیاسی امور پر بات نہیں کرتا اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے، لیکن ہم پاکستان کی سیاسی صورتحال پر مستقل نظر رکھے ہوئے ہیں، حکومت کی مدت بھی 12 اگست کو ختم ہورہی ہے اور یہ دیکھنا ہوگا کہ موجودہ یا عبوری حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کے لیے کوئی بات چیت شروع کرے گی، ان کا کہنا تھا کہ امید کرتے ہیں کہ پاکستانی آئین اور قانون کی حکمرانی کے مطابق آگے برھنے کا پرامن راستہ تلاش کرلیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ وزارت خزانہ اور حکومت پاکستان کے مذاکرات کے دوران میں باقاعدہ طور پر پہلی بار یہ خبر سامنے آئی ہے کہ جس میں سیاسی مسئلے پر اور حکومت سازی پر عالمی مالیاتی ادارے کی ہدایت بھی موجود ہے اس ہدایت کا انکشاف وزیراعظم اور آئی ایم ایف کی سربراہ کے درمیان براہ راست گفتگو اور قرض کے پروگرام کی درخواست کے فوری بعد آئی ایم ایف کے ذمے دار کی جانب سے آیا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو براہ راست جواب دینا پڑا ہے، وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے مشن کے سربراہ کے بیان کو پاکستان کے اندرونی امور میں مداخلت قرار دیا ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان قانون کے مطابق ہی چل رہا ہے‘ آئی ایم ایف کے مشن چیف کا بیان غیر معمولی نوعیت کا ہے‘ پاکستان کے داخلی سیاسی امور آئی ایم ایف کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرض پروگرام میں تاخیر پاکستان اور آئی ایم ایف دونوں کے مفاد میں نہیں۔ آئی ایم ایف کے اسلام آباد میں مشن چیف کے پاکستان کی سیاست اور موجودہ حکومت کے مستقبل کے بارے میں محتاط تبصرے اور وزیر مملکت برائے خزانہ کے جوابی اعتراض سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور حکومت پاکستان کے درمیان تعلقات کی کیا نوعیت ہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف کے احکامات پر مسلسل عمل کے باوجود حکومت کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکی۔ اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ موجودہ حکومت برقرار رہے گی‘ ساتھ ہی مشورے کے پردے میں یہ تبصرہ بھی کر دیا گیا ہے کہ سیاسی امور میں آئین اور قانون کی پابندی نہیں کی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کے سربراہ کا دعویٰ یہ تھا کہ انہیں بیس‘ بائیس سال کا تجربہ ہے اور وہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرلیں گے۔ یہ بھی دعویٰ تھا کہ معیشت کو بچانے کے لیے انہوں نے اپنی سیاسی مقبولیت کو دائو پر لگایا ہے‘ اس عرصے میں معیشت مکمل طور پر تباہ ہوتی رہی‘ یہاں تک کہ ’’ڈیفالٹ‘‘ کا خطرہ سر پر آگیا ہے۔ معاشی تباہی اور سیاسی بحران ایک دوسرے سے منسلک ہو گئے ہیں‘ آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے کے باوجود ایک اہلکار کی جانب سے سیاسی امور پر تبصرہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی مزاحمت سے گریز اور اطاعت کے اظہار کے باوجود تلخ تبصرہ قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ عوام پر مالی کوڑا برسانے کی ہدایات کو تو قبول کر لیا گیا اس کو داخلی امور میں مداخلت کا نام کیوں نہیں دیا گیا۔