سیاسی پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کا کھیل

668

پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے۔ باقاعدہ انجینئرنگ کرکے اس ملک میں بڑی جماعتیں بنائی گئیں۔ اگر ابتدا سے مختصر جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کیساتھ کیا کھیل کھیلا گیا۔ جب پاکستان میں فوجی اقتدار جنرل ایوب خان کے دور میں آسمان پر تھا اس وقت پاکستانی سیاست میں پہلی انجینئرڈ پارٹی تو نہیں لیکن پہلی بڑی پارٹی متعارف کرائی گئی جس کا نام کنونشن مسلم لیگ تھا۔ اس پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ جو ڈکٹیٹر جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ پھر چند ہی برسوں میں ڈیڈی کا اقتدار غروب ہوتا نظر آیا اور کنونشن مسلم لیگ کی کوکھ سے پیپلز پارٹی نے جنم لیا اور ذوالفقار علی بھٹو اس کے بانی قرار پائے۔ یہ عوامی جمہوری پارٹی کہلائی اور آج بھی یہی کہلائی جاتی ہے۔ پھر بھٹو صاحب کا 1972ء سے 76ء تک کا دور اقتدار سب نے دیکھا۔ فیڈرل سیکورٹی فورس، اسمبلی میں منتخب نمائندوں کو ڈنڈا ڈولی کرکے باہر پھینکوانا، دلائی کیمپ میں خواجہ خیرالدین سمیت درجنوں لوگوں کو اذیت دینا پارٹی کے اندر بھی جمہوریت برداشت نہ کرنا اپنے ہی لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پھینک دینا۔ لیکن کہتے ہیں کہ جنرلز ٹائر ٹیوب بنانے والوں کا کمال ہے کہ جس ٹائر میں چاہتے ہیں جتنی ہوا بھر دیتے ہیں اور جب ہوا نکالنی ہو تو نکال بھی دیتے ہیں۔ چناں چہ 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں اس پارٹی کو ختم کردینے کی کوشش کی گئی، سب اِدھر اُدھر ہوگئے۔ لیکن کچھ نہ کچھ بچ گیا جو 1988ء میں بے نظیر کی قیادت میں پھر متحرک ہوگئی۔ لیکن یہ پارٹی جتنی عوامی اور جتنی جمہوری تھی اس کا اظہار حبیب جالب بار بار کرچکے اور قوم نے خوب بھگت لیا۔
دوسری بڑی پارٹی جس نے ملک کی سیاست پر بہت گہرا اثر ڈالا وہ ایم کیو ایم تھی۔ باقاعدہ وضع کی گئی اور اس میں بھی خوب ہوا بھری گئی۔ لیڈر میں اور زیادہ بھری گئی اتنی کہ بھٹو کے بعد شاید دوسری شخصیت تھی جس کا سحر اس کے کارکنوں اور متوالوں پر تھا۔ جب اس ٹائر میں بھی ہوا ضرورت سے زیادہ محسوس ہوئی تو پنکچر کردیا گیا۔ ہوا نکال دی گئی۔ اب اس کے جو ٹکڑے کیے گئے پھر ان کو جوڑا گیا اور ایسا جوڑا کہ پینتیس پنکچر ہیں ہر وقت کہیں نہ کہیں سے لیکیج جاری رہتی ہے۔ جس زمانے میں ایم کیو ایم کی ہوا نکالی جارہی تھی اس زمانے میں ایک اور پارٹی پروان چڑھائی جارہی تھی اس کے بارے میں کسی کو تصور بھی نہ تھا کہ اس کو کس طرح اٹھایا اور کس طرح گرایا جائے گا۔ البتہ ایک مرتبہ ہم نے توجہ ضرور دلائی تھی کہ جس طرح لایا جاتا ہے اسی طرح ہٹایا بھی جاتا ہے لیکن یہاں بھی ہوا زیادہ بھردی گئی تھی۔ اب ہوا نکالی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی میں یہ خصوصیت تھی کہ اس کے لیڈر کو راستے سے ہٹایا بھی گیا تو بھی وہ میدان میں رہی۔ اسی طرح مسلم لیگ ن بھی جنرل پرویز کے آنے تک ایک مصنوعی پارٹی تھی لیکن جنرل پرویز کے دور میں پارٹی نے مزاحمت کرکے اپنے اندر جان پیدا کرلی اور وہ ایک سیاسی پارٹی بن کر اُبھری۔ اب پی ٹی آئی اس میدان میں آئی اور اس کے سارے الیکٹ ایبلز ایک ایک کرکے جارہے ہیں یا بھگائے جارہے ہیں۔ اگر اس پارٹی نے کوئی مزاحمت کرلی کچھ لوگ میدان میں رہ گئے تو شاید یہ مستقبل کی کوئی سیاسی پارٹی بن جائے۔
پاکستان میں سیاست کا جو کھیل کھیلا جاتا ہے اس میں اسی طرح کیا جاتا ہے۔ جب جنرل پرویز کو سیاسی چھتری یا سیاسی ٹوپی درکار تھی تو مسلم لیگ (ن) کے بطن سے (ق) لیگ وضع کی گئی اور اس کے الیکٹ ایبلز کو ملا کر پارٹی بنائی گئی۔ مجلس عمل مضبوط ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے مزید دس لوٹے متعار لیے گئے اور (ق) لیگ کی حکومت بن گئی۔ پی ٹی آئی کی حکومت بھی اسی طرح سیاسی وابستگیاں تبدیل کروا کر قائم کردی گئی۔ پھر جب ان کی ضرورت نہ رہی یا ان سے تنازع ہوگیا تو سیاسی گروپوں کی حمایت ختم کرکے حکومت ختم کرادی گئی۔ مزید کام 9 مئی کو ہوگیا اب ہوا چلی ہے پی ٹی آئی چھوڑنے کے اعلانات کی۔ ایک تجزیہ یہ کیا جارہا تھا کہ جنرل باجوہ کے خلاف عمران خان کے بیانیے اور پی ڈی ایم کے خلاف ان کی جدوجہد میں ساتھ دینے والوں کو فائدہ ہوگا۔ کہا جارہا تھا کہ اگر عمران خان سیاست میں نہ رہے، انتقال ہوجائے یا ملک سے چلے جائیں، بیمار ہوجائیں وغیرہ تو ان کا ووٹ بینک اس جماعت کو ملے گا جو ان کا ساتھ دے گی۔ لیکن اب جو لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں وہ اپنے ووٹ بینک کے ساتھ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ اب ایسے تجزیہ کرنے والوں سے پوچھیں کہ ووٹ بینک کہاں گیا۔ دراصل پوری پی ٹی آئی میں ووٹ بینک صرف عمران خان کا تھا جو پی ٹی آئی کا کہلاتا تھا۔ باقی سارے الیکٹ ایبلز اپنے اپنے ووٹ بینک کے یا ووٹوں کے ساتھ آئے تھے۔ اب فی الحال وہ جارہے ہیں۔ پہلا مرحلہ تو یہی ہے کہ پی ٹی آئی سے لوگوں کی تعداد کم کی جائے تا کہ عمران خان کو تنہا کیا جاسکے۔ اس کے بعد دیکھنا یہ ہوگا کہ پارٹی میں کس قدر دم خم ہے، سیاسی تربیت کتنی ہے اور جو قیادت باقی بچے گی اس میں کتنا وژن ہے اور وزن ہے، اسی پر انحصار ہے کہ مستقبل میں پی ٹی آئی کتنی بڑی پارٹی کے طور پر اپنا وجود منواسکے گی۔ بعض لوگ کہنے لگے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بے نقاب ہوگئی ہے۔ حیرت ہے انہیں پاکستان کی تاریخ میں بار بار ہونے والے ایسے واقعات نظر ہی نہیں آتے جن میں اس طرح پارٹیاں بنائی جاتی ہیں توڑی جاتی ہیں پھر نئی پارٹیاں وجود میں آتی ہیں اور پھر توڑی جاتی ہیں۔ البتہ ہر پارٹی اس طرح نہیں توڑی جاتی جس طرح پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا۔ دونوں میں ایک قدر مشترک رہی دونوں کے لیڈروں کی زبان سے پہلے فوجی افسروں پھر پوری فوج پر تنقید اور الزامات کا صدور ہوا پھر ان کے خلاف کارروائی ہوئی۔ دیکھیے اور انتظار کیجیے کیا ہونے جارہا ہے۔ اس سارے کھیل کو ہم چکنی مٹی کے کھلونے بنانے کا کھیل کہا کرتے ہیں۔ جب چاہا شیر بنادیا، پسند نہ آیا تو پھر گوندھ کر ہرن بنادیا۔ کبھی تیر بنایا کبھی تلوار بنایا کبھی ہل بنا کر سب پر چلادیا۔