مکتب طفل میں بیٹھے ہیں

581

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابقہ وزیراعظم عمران خان گرفتار ہوئے اور رہا بھی ہوگئے۔ عمران خان کی گرفتاری پر پاکستانی عوام کے ملے جلے تاثرات دیکھنے کو ملے۔ کچھ ناراض، کچھ خوش اور کچھ بہت ہی خوش تھے۔ جہاں خوش ہونے والے اپنی خوشی میں مگن لڈیاں ڈال رہے تھے وہاں ناراض ہونے والے بھی اپنی ملکی املاک کو نقصان پہنچا کر اپنے دلوں کا غضب دکھانے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ مزید سونے پر سہاگہ کہ رہائی کے بعد جب ان کے لیڈر کو دو گھنٹے کے لیے بٹھا لیا گیا تو اس لیڈر نے دھمکی کی صورت میں اپنے کارکنان کو تاکید کی کہ ’’اگر انہوں نے مجھے دوبارہ قید کیا تو میرے کارکن مجاہد پھر ایسا ہی ردعمل دیں گے جیسا کہ پہلے دیا گیا ہے‘‘۔ یاد رہے کہ صرف ایک بندے کی کرسی کی طلب کے جہادی دعوے میں مختلف شہروں میں تحریک انصاف کے پر تشدد احتجاج میں دس افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ حساس تنصیبات اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا، سرکاری و نجی گاڑیوں کو جلایا گیا۔ مختلف جگہوں پر پی ٹی آئی کے احتجاج کی وجہ سے لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہے ان میں بچے، بوڑھے اور مریض بھی شامل ہوں گے۔ لوگ کس قدر ذلیل و خوار ہوئے ہوں گے۔ ملک دنگا فساد کی آماجگاہ بنا رہا۔ سرکاری و پرائیویٹ املاک نذر آتش کی گئیں۔ ملک کی حالت تو عالمی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے پہلے ہی بہت کمزور تھی لیکن خبطی دماغوں کی موجودہ سیاسی کشیدگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کے رجحان کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی میں تاریخی کمی واقع ہوئی ہے اور ڈالر اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی تین سو روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ سونے کی قیمت میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے نہ صرف معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئیں بلکہ ٹیلی کام کمپنیوں کو دو دن میں 82 کروڑ روپے کا نقصان ہوا اور حکومت کو ٹیکس آمدن کی مد میں 28 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ پرائیویٹ طور پر بھی ہر فرد کی معیشت متاثر ہوئی۔ یہ سب کچھ اس ملک میں ہوا جہاں پہلے ہی مہنگائی کے خوفناک اژدھے نے لوگوں کو جھکڑ رکھا ہے۔ عوام کے لیے دال روٹی کا انتظام مشکل ترین ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود جذبہ جہاد و شوق شہادت سے لبریز صاحب بہادر فرما رہے ہیں کہ اگر مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ملک میں پھر وہی صورتحال ہوگی۔ حالانکہ اس کی مخملی گرفتاری، محلاتی قید اور وی آئی پی رہائی سب کے سامنے ہے۔ نیب نے عدالت سے عمران خان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی تاہم عدالت نے آٹھ روزہ ریمانڈ دے دیا لیکن اس پر بھی ٹھیک سے عمل درآمد نہ ہو سکا اور عدالت عظمیٰ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر اسے فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ چلیں شکر ہے کہ اگر ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اتنی جلد مقدمات نمٹانے کی طرف پیش قدمی کر ہی دی ہے تو لگتے ہاتھ ذرا بلوچستان کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کی رہائی کی طرف بھی تھوڑی توجہ دی جائے۔ ان کی گرفتاری بھی تو عدالت کے احاطے میں غیرقانونی طور ہوئی تھی جس کے کارکنوں نے احتجاج کے دوران کبھی سرکاری و نجی املاک کا نقصان نہیں ہونے دیا، جس کی جدوجہد اپنے نام و عہدے کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کو حق و انصاف دلانے اور ان کی راحت و سکون کے لیے ہے۔ بس عدالت عظمیٰ اب اپنا نیوٹرل ہونا بھی ثابت کر دے۔ ثابت کردے کہ اس کا انصاف سب کے لیے یکساں ہے۔ یہ عاجز اور شریف لوگوں کے بھی ساتھ ہے اور بلوائیوں سے ڈرنے والی نہیں۔
پاکستانی عوام سے میری استدعا ہے کہ جن سیاستدانوں کی خاطر تم اپنے گھر بار چھوڑ کر مظاہرے یا احتجاج کے لیے نکلتے ہو۔ ان کا راستہ صاف کرنے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے وطن اور ہم وطنوں کی املاک کو نقصان پہنچا کر گناہ کبیرہ کرکے اپنے رب کو بھی ناراض کرتے ہو۔ ذرا سوچیں! ان سب کے پاس تو ٹھنڈے یورپی ممالک کی قومیت موجود ہے۔ مشکل دن محسوس کرتے ہی یہ یہاں سے دوڑ جائیں گے اور نرم گرم بستروں میں سکون سے اونگھنا شروع کر دیں گے اور تمہاری انہیں بالکل بھی پروا نہیں ہو گی کہ تم کس حال میں ہو لیکن تم نے تو اسی وطن میں رہنا ہے جس کو نقصان پہنچا کر اس میں زندگی کی دوڑ کو اور زیادہ دشوار بنا رہے ہو۔ اگر ان سیاستدانوں کی ساری جدوجہد کا خلاصہ نکال لیں تو نتیجہ صرف تین لفظی جملہ ملے گا اور وہ ہے ’’اقتدار کی ہوس‘‘ اب آپ لوگ بھی باشعور ہونے کا ثبوت دیں اور ان کے ہاتھوں کا کھلونا مت بنیں۔ آنکھیں بند کر کے مست ملنگ بن کر ان کے حکم کے پیچھے دوڑنے کے بجائے آئیے! اپنی فہم و فراست کو میدان عمل میں لائیں۔ موجودہ ہنگاموں میں جو لوگ مارے گئے یا ماضی میں، ان کی بیواؤں اور یتیموں کی سرپرستی میں ان سیاستدانوں نے کتنا حصہ ڈالا، ان کے روتے بچوں کے کتنے آنسو پونچھے؟ بلکہ ان کو تم میں سے کسی کا نام تک بھی نہیں معلوم ہوگا۔ تم اچانک ان کے سامنے چلے جاؤ گے تو یہ تم سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کریں گے اور ایک تم ہو جو ان اقتدار پانے کے خبطیوں کے لیے اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے پر تلے ہوئے ہو۔ یاد رکھیں! تمہارے وطن اور گھروں کے پاسبان یہ لوگ نہیں ہیں بلکہ تم خود ہو۔ پاکستان کے آغاز سے لے کر اب تک سیاستدانوں نے تمہیں تمہارے کان سے پکڑ کر جس طرف لگایا تم اس طرف لگ گئے۔ ان کی طفل بازیوں کے مکتب میں بیٹھ کر ان کے اشاروں پر طفلان کی طرح تالیاں بجاتے رہے لیکن اب نہیں۔