یوٹیلیٹی اسٹور پر آن لائن لوٹ مار

712

جمہوریت پسند جماعتیں جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آتی ہیں تو عوام کی فلاح و بہبود ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے جس کے لیے وہ مختلف سہولتیں، مراعات اور اسکیموں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ ان کی زیادہ تر توجہ متوسط طبقے کو سہولتیں فراہم کرنا ہوتی ہیں کیوں کہ یہی وہ طبقہ ہے جو ان کو اقتدار میں لاتا ہے۔ غریب مزدور ہو یا کسان یا عوام ان کے ووٹ دھونس دھاندلی، ڈر خوف یا پھر لالچ سے حاصل کرلیے جاتے ہیں، امرا اور شرفا اوّل تو ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتا اور اگر گھر سے نکلتا بھی ہے اپنے مفاد کو مدنظر رکھتا ہے۔ بس یہی ایک متوسط طبقہ ہی ہے جو جوش اور جذبے کے ساتھ بھوکا پیاسا قطار میں لگا ووٹ ڈالنے کا منتظر ہوتا ہے، اس لیے اس متوسط طبقے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مزدور، کسان اور عوام کے لیے انقلابی اسکیموں کا اجرا ہوا جس کے ثمرات سے آج بھی عوام مستفید ہورہے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) بھی پیپلز پارٹی کی ایجاد ہے مگر اس طرح عوام میں رقم تقسیم کرکے انہیں محتاج بنانے کے بجائے اسی رقم سے کسی انڈسٹریل ہوم کی بنیاد رکھ دی جاتی تو بے سہارا خواتین کام کاج کرکے ہر ماہ ایک معقول رقم فخریہ انداز میں وصول کررہی ہوتیں اور ان کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی۔ احساس پروگرام بھی اس کی بگڑتی ہوئی شکل ہے، اس کے علاوہ اور کسی جماعت نے کوئی قابل قدر کام نہیں کیا۔
یوٹیلیٹی اسٹور ایک اچھی کاوش ہے، اس طرح متوسط طبقہ کے افراد معیاری اشیا خور ونوش یا کفایت حاصل کرتے تھے، جب یوٹیلیٹی اسٹور کا قیام عمل میں آیا اس وقت ملک میں بڑے بڑے شاپنگ مال نہیں ہوتے تھے اور اگر تھے بھی تو ان تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہ تھی مگر آج صورت حال ذرا مختلف ہے۔ جگہ جگہ شاپنگ مال بن گئے ہیں جو با رعایت اشیا فراہم کررہے جنہیں دیا جانے والا ڈسکائونٹ یوٹیلیٹی اسٹور سے زیادہ ہے جب کہ یوٹیلیٹی اسٹور پر عایت بہت کم ہے ماسوائے اس چیز کے جس پر حکومت سبسڈی دیتی ہے مگر یہاں
پر یوٹیلیٹی اسٹور کے عملے کا اسرار ہوتا ہے کہ سبسڈی اشیا کے ساتھ وہ جو اشیا دے رہا ہے وہ بھی خریدنا پڑے گی۔ گزشتہ دنوں حکومت نے گھی پر سبسڈی کا اعلان کیا تو ایک فرد کو دو کلو گھی کے ساتھ کوئی اور چیز خریدنی پڑتی تھی اور شناختی کارڈ کے اندراج کے بعد کمپیوٹر سے سلپ بھی فراہم کی جاتی تھی، پھر عملے نے ایک کلو گھی دینا شروع کردیا اور سلپ بھی غائب، تو شبہ ہوتا ہے کہ عوام کو تو ایک تھیلی دی جارہی ہے اور کمپیوٹر میں اندراج دو کلو ہورہا ہے یعنی بقیہ مال چھپر میں۔ یہ ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ چینی بازار میں مہنگی ہوئی تو یوٹیلیٹی اسٹور پر بھی 20 روپے اضافے کے ساتھ اس کی قیمت 90 روپے مقرر کردی۔ ایک دن ہمارا یوٹیلیٹی اسٹور جانے کا اتفاق ہوا تو دروازہ پر ہم نے گارڈ سے پوچھا چینی ہے اور کیا کلو ہے، اس نے بڑی شائستگی سے کہا ہے کہ کلو تو پتا نہیں 3 کلو کا پیکٹ 290 روپے کا ہے مگر اس کے لیے شناختی کارڈ لانا ہوگا اور کوئی چیز بھی خریدنی ہوگی۔ چناں چہ ہم دوسرے دن شناختی کارڈ لے کر اسٹور پہنچے تو دروازہ پر ہی ایک پرچہ چسپاں دیکھا جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔ ’’اطلاع برائے عوام الناس، تمام معزز کسمٹرز کو مطلع کیا جاتا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن ڈیجیٹل ہوچکا ہے۔ پورے پاکستان میں سارے اسٹور کا ریٹ برابر ہوتا ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان میں روزانہ کی بنیاد پر ریٹ تبدیل ہورہے ہیں۔ آئٹم پر لکھی ریٹیل کے مطابق ہم سیل نہیں کرتے ہمارے ریٹ آن لائن ہوتے ہیں۔ برائے کرم اسٹاف سے بحث کرکے وقت ضائع مت کریں کیشن کمپیوٹر بل کے مطابق لیا جائے گا‘‘۔
یہ تحریر پڑھتے ہی ہم سمجھ گئے کہ عوام کے ساتھ تو کوئی کھیل ہونے والا ہے۔ خیر اندر داخل ہوئے شناختی کارڈ کمپیوٹر والے کے حوالے کیا 3 کلو چینی کا پیک کائونٹر پر رکھا اور ایک شان مسالحہ کا پیکٹ جس پر خوردہ قیمت 90 روپے لکھی ہوئی تھی رکھ دیا۔ موصوف فرمانے لگے یہ 98 روپے کا ہے ہم نے کہا بھائی اس پر تو 90 روپے لکھا ہے تو اس نے پرچہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا قیمت بڑھ گئی ہے۔ یہ آپ کمپیوٹر پر دیکھ لیں اس کے ساتھ 2 روپے کی ماچس کھ کر 390 روپے کا بل بنادیا مگر بل نہیں دیا کہ سلپ نہیں ہے۔ اب یہ اللہ جانے سلپ نہیں ہیں یا آرڈر نہیں ہے۔ واپس آتے ہوئے ہم نے محلے کے ایک دکاندار سے پوچھا بھائی یہ شان مسالحہ کا پیکٹ کتنے کا ہے۔ اس نے ڈبہ نکالا پھر الٹ پلٹ کر بولا جی 90 روپے کا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹور والا کہتا ہے قیمت بڑھ گئی تو آپ کے پاس جو اسٹاک ہے وہ تو پرانی قیمت کا ہے؟ مزید گہرائی میں جانے کے لیے دوسرے دن ہم پھر یوٹیلیٹی اسٹور پہنچ گئے اور اہلیہ کے شناختی کارڈ کے ساتھ 3 کلو چینی پیکٹ رکھا اور سامنے کے ریک سے ایک ڈیٹول صابن بھی رکھ دیا۔ جس کے اس نے 120 روپے وصول کیے گھر آکر ہم نے چشمہ لگا کر دیکھا تو صابن پر لکھا تھا +76.32-MPP سیل ٹیکس 90 روپے، یعنی پورے 30 روپے کا فرق؟ یہاں ہمیں یاد آ گیا اسی ماہ ہم نے ڈیٹول صابن کا 3 والا پیکٹ جس پر قیمت 250 روپے درج تھی مارکیٹ کے دکاندار نے رعایت کے ساتھ 240 روپے میں دیا تھا اس طرح ایک صابن 80 روپے کا بیٹھا، یعنی 40 روپے کا نقصان۔ ہم کو تسلی نہ ہوئی اور اگلے دن ہم پھر یوٹیلیٹی اسٹور پہنچ گئے اور ڈیٹول صابن کا 3 والا پیکٹ اُٹھا کر کمپیوٹر والے کے حوالے کیا کہ بھائی ذرا بتانا آپ کے کمپیوٹر میں اس کی قیمت کیا ہے اس پر تو 250 روپے لکھا ہے۔ اس نے صابن پر بنے لوگوں پر لائٹ لگائی اور کہا جی یہ دیکھ لیں 360 روپے آرہا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں، اب ہم سے ضبط نہ ہوا اور ہم وہاں سے سیدھا مارکیٹ پہنچے اور ایک دکاندار سے 3 صابن کے پیکٹ کی قیمت پوچھی تو علم ہوا قیمت واقعی بڑھ گئی ہے مگر اتنی نہیں بولا لکھا تو 310 روپے ہے آپ 300 روپے دے دیں۔ اب ہم بڑے دعوے سے کہہ رہے ہیں کہ اس وقت پورے پاکستان میں ڈیٹول صابن کے 3 کا پیکٹ کی قیمت 360 روپے نہیں ہوگی یہ عوام کو آن لائن کے بہانے لوٹنے کا نیا ڈیجیٹل طریقہ ہے۔ یہ تو صرف ایک آئٹم کی بات ہے یہاں موجود کوئی آئٹم مقررہ بھی ریٹ پر نہیں مل رہے سب کی زائد قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں اور سلپ بھی نہیں دی جارہی۔ یہاں ہمیں یوٹیلیٹی اسٹور کے ایک ذمے دار نے انوکھی بات بتائی بولا ہم جو شناختی کارڈ کا نمبر کمپیوٹر میں ڈالتے ہیں نادرا اس کی تصدیق کرتا ہے جس کے وہ پیسے چارج کرتا ہے۔ اب اندازہ لگا پورے ملک سے روزانہ لاکھوں شناختی کارڈ کا اندراج ہورہا ہے تو نادرا کو روزانہ لاکھوں کی کمائی ہورہی ہے اور ظاہر ہے یوٹیلیٹی والے یہ رقم اپنے پلے سے تو نہیں دیں گے عوام ہی سے وصول کریں گے۔ یہ تو آپس کی بات ہے مگر نقصان تو عوام کا ہورہا ہے۔ ہے نہ آن لائن ڈیجیٹل لوٹ مار۔