کر لیا ہے ہم نے اپنا بیڑا غرق

418
ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر افتخار برنی پاکستانی طبیبوں کی تنظیم PIMA راولپنڈی/ اسلام آباد کے صدر ہیں۔ چوں کہ منفرد لہجے کے شاعر ہیں چنانچہ پاکستانی ادیبوں کی تنظیم دائرہ علم و ادب راولپنڈی / اسلام آباد کے بھی صدر ہیں۔ آپ کی ایک نظم ’مرے دانشوروں کے واسطے خلعت ضروری ہے‘ بے دانشوں میں بے حد مقبول ہوئی اور نئی حکومت کے آنے پرنئے سرے سے مقبول ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جسمانی امراض کے ساتھ ساتھ ذہنی امراض کے بھی معالج ہیں، سو ایک مُدّت سے پاگل انسانیت کی بے لوث خدمت کیے جارہے ہیں۔پچھلے دنوں ڈاکٹر صاحب نے ہمارا ایک کالم پڑھ کر ہمیں لکھ بھیجا: ’’حاطب بھائی مجھے بھی تھوڑی سی رہنمائی درکار ہے۔ مہربانی فرما کر بیڑا یا بیڑہ کے پس منظر سے آگاہ فرمائیں۔ یہ کب اُٹھایا جاتا ہے اور کب غرق کیا جاتا ہے؟‘‘

ڈاکٹر صاحب کے سوال کا فوری جواب ہم نے ضروری سمجھا۔کیا خبر کسی (ذہنی) مریض کا علاج اس سوال کے جواب ہی پر منحصر ہو۔ پس پہلی بات تو یہ ہے کہ خواہ اُٹھائیں یا غرق کریں دونوں صورتوں میں املا ’بیڑا‘ ہوگا، بیڑہ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اُٹھاتے وقت اس کا تلفظ اور ہوتا ہے، غرق کرتے وقت اور ہوجاتا ہے۔’بِیڑا اُٹھانا‘ میں یائے معروف کی آواز نکلتی ہے، یعنی اُٹھاتے ہوئے اِسے ’بی ڑا‘کہا جائے گا۔ یہاں ’بِیڑا‘ سے مراد پان کی گلوری ہے۔ پان کے پتے پر کتھا چونا لگا کر، بیچ میں چھالیا کے ٹکڑے ڈال کر، لپیٹ دیتے ہیں۔ پتے کی اس پُڑیا کو گلوری یا بِیڑا کہتے ہیں۔ بحرؔ کو دیکھیے کہ بڑے میاں اپنی بڑی بی سے کیا کہہ رہے ہیں:

بوسۂ لب کی تم سے کیا اُمید
ایک بِیڑا بھی پان کا نہ ملا

’لب ‘اور ’پان‘ پریاد آیا کہ اُسی زمانے کے کسی شاعر نے سرِعام اپنی ہتکِ عزت ہوجانے پر اس طرح پُر زور احتجاج کیا تھا[یہ شعر آپ اپنے کسی بھی پسندیدہ سیاست دان کے لہجے میں پڑھ سکتے ہیں]

لب کے بوسے پان لیں اور میں کھڑا دیکھا کروں؟
کیا مری توقیر پتے کے برابر بھی نہیں؟

’بِیڑا(بی ڑا) اُٹھانا‘ اب محاورہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے کسی مشکل کام کی انجام دہی کا عزم بالجزم کرنا، ذمہ لے لینا، عہد کرنا، ہامی بھرنا یا شرط باندھ لینا۔ مگر اگلے زمانے میں یہ دستور تھا۔ بالخصوص بادشاہوں، نوابوں اور راجوں، مہاراجوں کے ہاں رواج تھا کہ کوئی مہم درپیش ہوتی تو سورماؤں کو بلا کر ان کے سامنے ایک خاصدان میں پان کی گلوریاں رکھ دی جاتیں۔ پوچھا جاتا کون اس معرکے کو سر کرے گا؟ جس سر پھرے کے سر میں اس مہم کو سر کرنے کا سودا سما جاتا وہ آگے بڑھ کر پان کا ایک بِیڑا اُٹھا لیتا، منہ میں رکھتا اورچبا جاتا۔ گویا اس طرح وہ اعلان کردیتا کہ اس معرکے کو سر کرنے کا ذمہ اُس نے لے لیا ہے۔ پھر واہ واہ، شاباش اور داد کے ڈونگرے برسنے لگتے کہ اتنے لوگوں میں صرف برنی صاحب نے اس مشکل کام کا بِیڑا اُٹھایا۔ انھیں خلعتِ شاہی پہنانا چاہیے۔

’بی ڑا‘ پر یاد آیا کہ ایک چیز ’بی ڑی‘ بھی ہوتی ہے۔ یہ اُٹھائی نہیں، سُلگائی جاتی ہے۔ ویسے تو پان کی چھوٹی گلوری کو بھی بِیڑی کہتے ہیں، لیکن معروف معنوں میں جسے بِیڑی کہنے کا رواج ہے، وہ یوں سمجھ لیجے کہ ایک قسم کا دیسی سگرٹ ہے۔ ڈھاک کے خشک پتے میں تمباکُو لپیٹ کر دھاگے سے باندھ دیتے ہیں۔ یوں ایک مخروطی بتّی بن جاتی ہے۔ ایسی درجن بھر بتیاں کاغذ کی مخروطی پُڑیا میں سر بند کرکے بیچتے ہیں۔ صارفین و شائقین مذکورہ بتّی کو چوڑی طرف سے سُلگا کر پتلی طرف سے کَش لیتے ہیں۔ اس تماشے کو ’بِیڑی پینا‘کہا جاتا ہے۔

جولوگ کسی کام کا ’بے ڑا‘ اُٹھانے کا اعلان کرتے ہیں، شاید اُنھیں نہیں معلوم کہ اگربھولو پہلوان بھی ’بے ڑا‘ اُٹھانے کی کوشش کرے تو اُس کی گردن ٹوٹ جائے۔ معلوم ہوتا تو ایسا گردن توڑ اعلان کاہے کو کرتے؟ ہمہ شما تو کیا پوری بحریہ کے بس کی بات نہیں کہ اپنے ہاتھوں سے پورا ’بے ڑا‘ اُٹھا سکے۔ یائے مجہول کے ساتھ جو بیڑا (یعنی ’بے ڑا‘) ہوتا ہے اُس کا مطلب ہے ’کشتیوں یا بحری جہازوں کا جُھنڈ‘، جسے انگریزی میں ‘Fleet’ کہتے ہیں۔ پُرانے زمانے میں بانسوں کا وہ ٹھاٹھ بھی بیڑا کہلاتا تھا جس کو باندھ کر اور اس پر بیٹھ کر موجوں کے رحم و کرم پر تیرتے ہوئے دریا پار کرلیا جاتا تھا۔ نشورؔ واحدی موجودہ سیاسی قیادتوں کو دیکھ کر اُسی بانس بیڑے کو یاد کرنے لگتے ہیں:

وہ اچھا تھا جو بیڑا موج کے رحم و کرم پر تھا
خضر آئے تو کشتی ڈوبتی معلوم ہوتی ہے

کشتیاں ڈوبنے کے بجائے کنارے آکر لگ جائیں یا بحری جہاز وں کا پورا دستہ سلامتی کے ساتھ ساحل تک پہنچ جائے تو جان لیجے کہ ’بیڑا پار‘ ہوگیا۔مجازی طور پر یہ محاورہ کسی مصیبت سے نجات مل جانے، کامیابی پالینے، مطلب حاصل کر لینے یا منزلِ مراد تک پہنچ جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔نہ جانے عرشؔ ملسیانی کی خوش فہمی تھی یا بھولے بھالے محبوب کو پُھسلانے کامحبوبانہ انداز:

مری کشتی ہے، میں ہوں اور گردابِ محبت ہے
جو تُو ہو ناخدا میرا، تو بیڑا پار ہو جائے

ویسے ہمارے ہاں ’بیڑا پار‘ کم ہی ہوتا ہے۔ ’بیڑا غرق ‘ زیادہ کیا جاتا ہے۔ جسے دیکھیے قوم کا بیڑا غرق کرنے کا بِیڑا اُٹھائے پھر رہا ہے۔’بیڑا غرق کرنے‘ سے مراد ہے کام بگاڑنا، خراب کرنا یا تباہ و برباد کرڈالنا۔یہ ایک طرح کا کلمۂ (بد) دعائیہ بھی ہے ’ہت تیرا بیڑا غرق‘۔ یادش بخیر! کبھی قومی معاملات کا ذکر آ جاتا تو ہمارے استادِ محترم پروفیسر محمد اسحٰق جلالپوری مرحوم اپنے مصرعے پر حکیم الامت علامہ اقبالؔ کے مصرعے کی گرہ لگا کربڑی معصومیت سے پوچھا کرتے تھے:

کر لیا ہے ہم نے اپنا بیڑا غرق
’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق؟‘‘

’تو اے مشرقی قومو! اب کیا کرنا چاہیے؟‘بیڑا غرق ہو جائے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غرقابی سے بچ رہنے والوں کے پاؤں میں بیڑیاں (بے ڑیاں)ڈال دی جاتی ہیں۔ نئی نسل کے سمجھانے کو بتاتے چلیں کہ وہ زنجیر جو آپ نے چڑیا گھر میں ہاتھی کے پاؤں میںپڑی دیکھی ہوگی کہ وہ بھاگ نہ سکے، بیڑی (بے ڑی) کہلاتی ہے۔ ماں باپ اپنے فیلِ بے مہار لڑکوں کے پاؤں میں بھی نکاح اور شادی بیاہ کی بیڑیاںڈال دیتے ہیں کہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ زن و فرزند کی ذمے داریاں سر پر آپڑتی ہیں تو بھاگنے کی سکت نہیں رہتی۔ پاؤں میں بیڑیاں ہونا گویا قید ہوجانا یا بندھ جانا ہے۔ ناسخؔ کے پاؤں میں حدّاد نے بیڑیاں ڈالیں توبے حد ممنون ہوئے۔’حدّاد‘ لوہار، آہن گراور نعل بند کو کہتے ہیں یا پھر مجرم پہ لگائی جانے والی حَد پر عمل درآمد کرانے والے داروغہ کو۔تو شیخ امام بخش ناسخؔ حدّادکے احسان مند ہو کر کہتے ہیں:

کوئے جاناں سے نکل جاتے کہیں وحشت میں ہم
بیڑیاں ڈالیں بڑا احسان ہے حدّاد کا

بیڑیاں کٹ جانا یا بیڑیاں ٹوٹ جاناآزاد ہوجانے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ مگر ذرا عالَمِ فقیر کی آزادی پر ندیمؔ کایہ شعر دیکھیے:

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں