ٹامک ٹوئیاں

938

میاں چنوں سے میاں امجد محمود چشتی کی ایک چٹھی موصول ہوئی ہے:

’’السلام علیکم سر! ممکن ہو تو ’ٹامک ٹوئیاں مارنا‘ کی عجیب اصطلاح پر رہنمائی فرمائیے گا۔اس کا اُردو سے تعلق نہیں مل رہا ہے‘‘۔

ارے بھائی اس کا اُردو سے تعلق ملے کیسے؟ اُردو والوں میں سے جسے دیکھو وہی اس دُکھیا کو مارنے دوڑتا ہے۔ لیکن صاحب! یہ بتائیے، کیا اُردو سے تعلق جاننے کے لیے فقط اتنا جان لینا کافی نہیں کہ یہ اُردو کا محاورہ ہے اور اُردو میں استعمال ہورہا ہے؟ جہاں تک عجیب ہونے کا تعلق ہے تو جناب! ہر لفظ ہی عجیب ہے۔ تھوڑی دیر تک لفظ ’عجیب‘ ہی کو عجیب عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے (گن کر) چالیس بار ’’عجیب… عجیب… عجیب‘‘ کی رَٹ لگا کر دیکھیے۔ پھر بتائیے، کیا اس سے زیادہ عجیب لفظ کوئی اور ہے؟

 

یوں تو ٹامک ٹوئیاں مارنے یا ’ٹامک ٹوئیے‘ مارنے کا مفہوم ہے: ’اِدھر اُدھر ہاتھ چلانا، اَٹکل پَچُّو یا اندازے سے کوئی کام کرنا، اُلٹے سیدھے قدم اُٹھانا، خیالی و قیاسی باتیں کرنا، یا بے نتیجہ کد و کاوش کرنا‘۔ اِنھیں معنوں کو مستعار لے کرآوارہ گردی کرنے اور خیالی گھوڑے دوڑانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پھراگر کسی کام کو کرنے کا صحیح طریقہ معلوم نہ ہو اور تیر تکّے لگا کر یا “Hit & trial method’ سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس عمل کو بھی ’ٹامک ٹوئیاں مارنا‘ کہا جاتا ہے۔ مگر دیکھنا چاہیے کہ آخر اس مار پیٹ کی کُنْہ کیا ہے؟ (’کنہ‘ کو مُنہ کی طرح پڑھتے ہیں اور اس کا مطلب ہے تَہ، گہرائی، جڑ یا اصلیت)

 

لغات میں اس سے ملتا جلتا ایک اور محاورہ ملتا ہے: ’’ٹاپَک ٹُوئیاں مارنا‘‘ یا ’’ٹاپک ٹُیّاں مارنا‘‘۔ بینڈ باجا بجانے والوں کے ہاں آپ نے ایک باجا دیکھا ہوگا، جس کو ڈھول کی طرح گلے میں ڈال کر بجاتے ہیں۔ یہ باجا عربی میں طاسہ، فارسی میں تاسہ اور اُردو میں تاشہ کہلاتا ہے۔ میر انیسؔ کے فرزندِ اکبر میر خورشید علی نفیسؔ کے ایک مرثیے میں بھی اس باجے کا ذکر ملتا ہے:

آتی تھی صدا صاف، کڑکتے تھے جو تاسے
صدقے ترے اے تین شب و روز کے پیاسے

آج بھی تعزیہ نکالنے والے تعزیے کے پیچھے تاشے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ کَڑکتے ہوئے تاشے۔ ’کڑ کڑ کَیں،کڑا کڑ،کڑ کڑ کَیں‘۔ جن لکڑیوں سے یہ تاشہ پیٹا جاتا ہے یا جن چوبوں سے تاشے پرضرب لگائی جاتی ہے، اُن کی جوڑی کو ’’ٹاپک ٹوئیاں‘‘ یا ’’ٹاپک ٹُیّاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ تاشہ بجانے والے اپنے دونوں ہاتھوں سے ان چوبوں کو تاشے پر جلدی جلدی، تیز تیز اور اندھادھند برساتے ہوئے اپنی گردن ہلاتے رہتے ہیں۔ شاید یہ بتانے کو کہ اس کام میں کچھ سوچنا پڑتا ہے نہ سمجھنا۔ بس تاشے پر ٹاپک ٹوئیاں مارتے جائیے اور اپنا سر (مع گردن) اِدھر اُدھر ہلاتے رہ جائیے۔ مگر پروفیسر انورؔ مسعود تو یہ کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگ سمجھ سوچ والے ہوتے ہیں:

 

ہیں وہی واقفِ اسرار و رموزِ نغمہ

 

بزمِ موسیقی میں جو سر کو ہِلانے لگ جائیں

یہ دو چوبیں، جن میں سے ایک ٹاپَک اور دوسری ٹُوئی کہلاتی ہے، تاشے پر پڑتی ہیں تو دو مختلف کڑک دار آوازیں نکالتی ہیں۔ اِنھیں آوازوں سے تاشے کی گَت بنتی ہے اور تاشہ پیٹنے والے کی دُرگت۔ ’’ہاپک، جھاپک، ٹاپک، ٹُوں‘‘۔ ’ٹاپک‘ کا لفظ غالباً ’ٹاپ‘ سے نکلا ہے۔ ’ٹاپ ‘اُس آواز کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے چلتے یا دوڑتے وقت زمین پر اُس کا سُم پڑنے سے نکلتی ہے۔گھوڑا کھڑے کھڑے زمین پر اپنے اگلے پاؤں مارنا شروع کردے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ’’گھوڑا ٹاپ رہا ہے‘‘۔ اسی عمل سے محاورہ بھی بن گیا ہے ’ٹاپنا‘۔ اگر کسی شخص کو بتانا ہو کہ تمھاری بھاگ دوڑ محض ہماری نصیحت نہ ماننے کی وجہ سے بے معنی رہ جائے گی یا رائیگاں چلی جائے گی، تو کہا جاتا ہے: ’’ میاں ایسا ایسا کرلو، ورنہ ٹاپتے رہ جاؤ گے‘‘۔ اسی طرح اگرکوئی شخص مارا مارا پھر رہا ہو یا حیران و پریشان ہو ہو کر جابجا بھٹک رہا ہو تو اُس کی اِس کیفیت کو بیان کر نے کے لیے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ ’’وہ ٹاپتا پھر رہا ہے‘‘۔

شیخ قلندر بخش جرأتؔ کا توسنِ فکر بھی (یعنی اُن کے خیال کا گھوڑا) اُن کے ساتھ ساتھ ٹاپا کرتا تھا:

خالی زمینِ شعر نظر آئے ہے تو بس
جرأتؔ لگے ہے توسنِ فکر اپنا ٹاپنے

توبس یوں سمجھ لیجے کہ گھوڑے کے قدموں کی چاپ کو ہم گھوڑے کی ٹاپ کہتے ہیں۔ اس کی چاپ بھی تو Topکی ہوتی ہے۔ غالباً اسی ٹاپ کی آواز نکالنے والی چوب کو ’ٹاپک‘ کہا گیا۔ ٹاپک کا سرا آگے سے چوڑا اور پیچھے سے پتلا ہوتا ہے۔ اب رہ گئیں ’ٹُوئیاں‘۔

 

ویسے تونرسل، سرکنڈے یا نیزے کی ایک پور کو ’ٹوئی‘ کہا جاتا ہے۔ پور اُس حصے کوکہتے ہیں جو گنّے کے ڈنڈے یا بانس کی لاٹھی میں دو گانٹھوں یا دو گرہوں کا درمیانی فاصلہ ہوتا ہے۔ ہماری ہراُنگلی کے تین جوڑ ہوتے ہیں۔ ان جوڑوں کے درمیانی حصے کو بھی اُنگلی کی پور کہا جاتا ہے۔ پور کا مطلب ہے ٹکڑا۔ نَیزہ پتلے بانس یعنی نرسَل یا نرکُل کو کہتے ہیں، جس سے بانسری بنائی جاتی ہے۔ نَیزہ دراصل ’نَے زہ‘ تھا۔ نَے بانسری کو کہتے ہیں اور بانسوں یا سرکنڈوں کے جس جُھنڈ سے ’نَے‘ الگ کی جاتی ہے اُسے نیستاں کہتے ہیں۔ احسان دانشؔ کہتے ہیں کہ جس بانس سے ـنَے‘ تراش لی جائے اُس کا زخم کبھی نہیں بھرتا، ناسُور بن جاتا ہے اور اِس جدائی کے غم میں بانسری بھی عمر بھر روتی ہی رہتی ہے:

 

ناسُور بھر سکے نہ فغاں ضبط ہو سکی
جب نَے کو نیستاں سے جدا کر دیا گیا

’نَے زَہ‘ ملا کر لکھتے لکھتے نیزہ ہی ہوگیا۔ نیزے کی اسی ’ٹوئی‘ سے قلم بھی بنایا جاتا تھا۔ موجودہ نسل میں سے شاید ہی کسی نے نیزے یا سرکنڈے کا قلم دیکھا ہو۔ مگرممکن ہے کہ تصویر کہیں سے دیکھنے کو مل جائے۔ مل جائے تو جان لیجے کہ اسی لکڑی کو ’ٹُوئی‘ کہا جاتا تھا۔ اس کی جمع ٹوئیاں ہے۔ لیکن ’ٹوئیاں‘ یا ’’ٹُیّاں‘ ایک قسم کے چھوٹے توتے (یا طوطے) کو بھی کہتے ہیں۔ ٹُیّاں اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس کی پست قامتی دیکھ کر کسی ننھے منے بچے اور کسی پستہ قد آدمی کو بھی ٹُیّاں کہہ کر پُکارلیا جاتا ہے۔
قصہ مختصر۔ ’’ٹاپک ٹُوئیاں‘‘ ایسی دو لکڑیاں ہیں جن کو تاشے پر اندھا دھند مارتے رہنا ’’ٹاپک ٹوئیاں مارنا‘‘ کہلاتا ہے۔ جو لوگ بے تاشے کے یہ خیالی چوبیں برساتے رہتے ہوں گے وہ شاید ’’ٹامک ٹوئیاں‘‘ مارتے ہوں۔ ’ٹامک‘ کا ہمیں بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ گو اب ’ٹاپک ٹوئیاں مارنے‘ کی اصطلاح لغت کے سوا کہیں نظر نہیں آتی، مگر ’ٹامک ٹوئیاں‘ مارنے والے ہر طرف نظر آتے ہیں۔کسی اور طرف دیکھنے کی کیا ضرورت؟ ہماری طرف ہی دیکھ لیجے۔ مگر صاحب! ہمیں کیا مار آئی ہوئی ہے کہ ہم ناحق ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے رہیں۔ توپ، بندوق، تیغ، تلوار، تیر، برچھی، بھالا، چھری، چاقو، قینچی، لاٹھی، ڈنڈا، گھونسا، تھپڑ، لات اور طمانچہ جیسے آلاتِ حرب و ضرب عدو کے منہ پر مارنے کے علاوہ بھی بہت کچھ بچ رہتا ہے مارنے کو۔ مثلاً ہُنکاری مارنا یعنی کسی کی بات سنتے وقت مسلسل ’ہوں ہاں‘ کرتے رہنا۔ گپ مارنا۔ پہلے قہقہے مارنا، پھر دھاڑیں مارنا۔ فارغ ہوکر اطمینان سے آلتی پالتی مارنا۔ آلتی پالتی مار کر ڈینگیں مارنا۔ ڈینگ مارتے ہوئے آنکھ مارنا۔ کسی کا چاند سا چہرہ دیکھ کر ہائے مارنا۔ کسی لفنگے کو ہائے مارتے دیکھ کر پہلے بُکَّل مارنا پھر گھونگھٹ مارلینا۔ یہ سب تماشا دیکھ، دریائے حیرت میں غوطے مارنا۔ غوطہ مارتے ہوئے کسی سے آگے نکل جانے کے لیے اُسے کہنی مارنا۔ علاوہ ازیں پھول مارنا، چونچ مارنا، بانگ مارنا، جھانکی مارنا، مکھیاں مارنا اور ٹھاٹھیں مارنا وغیرہ وغیرہ۔ ٹھاٹھیں کیسے مارتے ہیں؟ کسی سمندر سے جا کر پوچھنا پڑے گا!