سیدنا علی جرأت و عدالت کی بہترین مثال

590

اسلام کے شیدائیوں کے لیے حضور کریمؐ کی دعوت پر لبیک کہنے والے اْس اولین گروہ صحابہ کرامؓ کا اسوہ ہمیشہ لائق تکریم و تحریم رہے گا جن میں خواتین عالم کی جانب سے سیدہ خدیجہؓ، مردوں میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ، غلاموں میں جنابِ زیدؓ اور بچوں میں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے نبی کریمؐ پر ایمان لانے اور اْن کا ساتھ نبھانے کا اعلان کیا۔ قریشِ مکہ کی دعوت کے دوران دودھ اور گوشت پیش کرتے ہوئے جب نبی کریمؐ نے توحید کی دعوتِ پیش کی تو سب رؤ سائے قریش انکار کرتے ہوئے سر جھکائے بیٹھے رہے لیکن اس موقعے پر دنیا میں اللہ تعالیٰ کے اْس وقت کے واحد نمائندے رسول کریمؐ کا حوصلہ بڑھانے کے لیے سیدنا علی ابن ابی طالبؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اگرچہ میں کم عمر ہوں، میری پنڈلیاں کمزور اور آنکھیں دْکھنے آئی ہیں لیکن میں اس پر صعوبت اور ابتلا آزمائش سے پْر راہ گزر میں آپؐ کا ساتھ دوں گا۔ اس قدر پْر عزم اور حوصلہ مند کم سن بچے میں نبی کریمؐ کے لیے اس فدائی اور وارفتگی کے اظہار کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپؓ کو بچپن ہی سے بصیرت کا وافر حصہ اور حکمت کا عظیم ذخیرہ عطا ہوا تھا، سیدنا علیؓ نبی کریمؐ کے براہ راست سایۂ عاطفت میں رہنے اور اہل بیت ہونے کے باعث آپؐ کے زیر تربیت نشوونما پانے کی وجہ سے کندق ہی نہیں کندن گر بن چکے تھے جس کا سب سے پہلا تجربہ چشم فلک نے نبی کریمؐ کے ہجرت ِ مدینہ والی رات کیا تھا۔ جب قبائل قریش کے جوانانِ تیغ بند، نبی کریمؐ کے دولت کدے کے باہر آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لیے شمشیر بکف کھڑے تھے اور آپؐ نے ایک طرف اپنی ہمراہی کے لیے ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا تھا اور دوسری طرف بستر نبوت پر لٹانے کے لیے جناب علیؓ کو منتخب کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ علی (صبح قریش کے لوگوں کی وہ امانتین جو میرے تکیہ کے نیچے رکھی ہیں اْن کے مالکوں کے حوالے کر کے مدینہ چلے آنا۔ کسی نے سیدنا علی ؓ سے پوچھا کہ امیر) آپؓ کو اس ہجرت ِ مدینہ والی رات دشمن کے حملے کے خوف سے نیند تو نہ آئی ہو گی؟ فرمایا خدا کی قسم پوری زندگی اس قدر پْر سکون نیند کبھی نہیں سویا جس قدر اْس رات سویا تھا کیونکہ نبیؐ کے فرمان کے بموجب مجھے یقین کامل تھا کہ یہ دشمن میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے اور میں صبح امانتیں اْن کے مالکوں کے حوالے کر کے آقاؐ سے جاملوں گا۔
جگر گوشۂ رسول خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزھراءؓ سے نکاح کے ذریعہ نبی کریمؐ کا شرف دامادی حاصل ہونے اور سیدنا حسنین کریمین کی آپؓ کی گود میں تربیت ہونا ایک عظیم اعزاز ہے۔ ریاست مدینہ سے غداری کرنے والے یہود کے مشہور نا قبال تسخیر قلعہ خیبر کی فتح کے لیے نبی کریمؐ کا آپؓ دست ِ مبارک میں علم جنگ دینا اور آپؓ کا فتح سے ہمکنار ہونا ایک طر ف آپؓ کی جرأت، بہادری اور سپاہیانہ جوہر کا آئینہ دار ہے تو دوسری طرف ایک جنگ کے دوران دشمن کے سینے سے اْتر آنا اور قتل سے گریز فرمانا جبکہ اْس نے آپؓ کے چہرے پْرانوار پر تھوک کر گستاخی کا ارتکاب کیا تھا اور جب حیرانگی کے عالم میں خود اْسی نے استفسار کیا تو سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ پہلے تم سے جنگ اللہ اور رسولؐ کی خاطر تھی جب میری ذات درمیان میں آگئی تو میں نے معاف کر کے اسوۂ رسول پر عمل کیا، یہودی آپؓ کے طرز عمل کو دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔
سیدنا علیؓ فقاہت، عدالت، سیاست، عدل و انصاف کے خاص جواہر سے متصف تھے یہ ہی وجہ تھی سیدنا ابو بکر صدیقؓ، سیدنا فاروق اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کے دورِ ہائے خلافت میں چیف جسٹس کے عہدے پر آپؓ ہی فائز رہے۔ سیدنا علیؓ اتحادِ اْمت کے بہت بڑے داعی اور پر چارک تھے آج ساری دنیا میں سیدنا علیؓ کے عدل و انصاف، جرأت و بے باک اور بہادری و دلیری کے ساتھ ساتھ اْن کے اتحاد بین المسلمین کے لیے خلفاء ثلاثہ کے ادوار میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول کرنے کے عمل کی بھی پیروی کی جانی چاہیے۔