آٹھ برس بیت گئے، اب پیشی پر آنے کے پیسے بھی نہیں، لاپتا شہری کی اہلیہ کی عدالت میں دہائی

182
the efforts

کراچی:سندھ ہائی کورٹ میں  لاپتا شخص کی اہلیہ نے کمرہ عدالت میں دہائی دیتے ہوئے کہا کہ برسوں سے ہم عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں، انصاف کی دہلیز پر انصاف نہیں مل رہا۔

جمعرات کوسندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔کمرہ عدالت میں موجود  لاپتا حسن دلاور کی اہلیہ نے کہا کہ عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے 8 سال ہوگئے اب تو پیشی پر آنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ قیامت کے دن انصاف فراہم کرنے والے اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے جبری لاپتا شہریوں کے اہلخانہ کو 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا، حکومتی اعلان کے بعد بیٹی کی شادی کی تاریخ مقرر کی لیکن آخری وقت پر پیسے دینے سے انکار کردیا گیا۔انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ شوہر نے جرم کیا ہے تو بچوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟

ایک اور لاپتا شہری کی اہلیہ نے بتایا کہ محمد ریاست اللہ کو 8 سال قبل بورڈ آفس کے قریب سے حراست میں لیا گیا، آج تک شوہر کی بازیابی کے لیے کبھی جے آئی ٹیز تو کبھی عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔

ثاقب آفریدی کی اہلیہ نے سماعت کے دوران کمرہ عدالت کو بتایا کہ اس کے شوہر کو ابوالحسن اصفہانی روڈ سے 2015 میں حراست میں لیا گیا تھا، ہماری 4 بیٹیاں ہیں اور  ادارے نے تنخواہ بھی بند کردی ہے۔

10 برس سے لاپتا محمد علی کی اہلیہ بھی کمرہ عدالت میں رو پڑی، انہوں نے بتایاکہ اب تک جے آئی ٹیز کے 24  اور صوبائی ٹاسک فورس کے 8 اجلاسوں میں پیش پوچکے ہیں۔انہوں نے دہائی دیتے ہوئے سوال کیا کہ ہمیں بتا دیا جائے بچوں کو لے کر انصاف لینے کے لیے کہاں جائیں؟ اپنے ہی ملک میں لاپتا افراد کے خاندانوں کو انصاف نہیں مل رہا۔

جسٹس نعمت اللہ نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت کے بعد لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ حراستی مراکز سے رپورٹس موصول نہیں ہوئیں۔ عدالت نے کہا کہ لگتا ہے اب آپ کے خلاف سخت ایکشن لینا پڑے گا۔عدالت نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق تفصیلی رپورٹس سمیت 10 مئی کو طلب کرلیا۔عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے وفاقی وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور دیگر اداروں سے جواب طلب کرلیا۔