بائیکاٹ نہیں نظام وضع کریں

593

رمضان کریم کی آمد سے قبل ہی مسلمان پاکستانی عوام ذہن پر سوار کرلیتے ہیں کہ اب مہنگائی کا طوفان اٹھنے والا ہے۔ یہ وہ سنی سنائی بات پر نہیں بلکہ سال ہا سال سے ان پر بیتے ماہ رمضان کے کئی تجربوں کی بنیاد پر سوچتے ہیں۔ اب تو رمضان کیا جب سے یہ حکومت آئی ہے روزانہ کی نحوست مہنگائی کی صورت میں قوم سہ رہی ہے۔ پتا نہیں کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔ گمان تھا انارکی پھیلے گی وہ تو الحمدللہ ابھی رکی ہوئی ہے لیکن ٹیپو سلطان روڑ پر واقع ریسٹورنٹ پر جو دھاوا بولا گیا، اس کے پیچھے بھی مہنگائی کے خلاف شہریوں کا احتجاج ہے۔ اس کے صحیح اور غلط کا فتویٰ دینے کا تو مجاز نہیں البتہ خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حالات اس نہج پر پہنچانے والوں کا گھیرا کب تنگ ہوگا جس میں حکمران، ضلعی و مقامی انتظامیہ اور ناجائز منافع خور طبقہ شامل ہے۔ پہلے تو کروڑوں، ارب پتی کارخانے دار اور تاجر اس خباثت میں مبتلا تھے مگر رشوت خور عناصر کی پشت پناہی کے سبب دکاندار اور ٹھیلے والوں نے بھی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی ہیں اور من مانی کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ اب سماجی رابطے کے ذرائع سے کچھ زندگی کے مختلف شعبوں
سے تعلق رکھنے والے طبقے کا خیال ہے کہ پھل فروشوں کا بائیکاٹ کریں تو قیمتیں نیچے آجائیں گی۔ ایک حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ماضی میں بھی ایسی بائیکاٹ کی بہت اپیلیں اور مہمات چلی ہیں جن سے مہنگائی تو نہیں رکی البتہ ایسی کوششیں دم ضرور توڑ گئیں۔ اب کیا حکمت عملی اختیار کی جائے کہ اس ناسور کا علاج ہوسکے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ اس سلسلے میں کچھ اقدامات اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ دکانوں اور ٹھیلوں پر روزانہ کی بنیاد پر ریٹ لسٹ کو آویزاں کرنے کی پابندی لازمی قرار دے
دی جائے۔ اخبارات و ایف ایم ریڈیو و ٹی وی چینل اور دیگر مستند ذرائع کے ذریعے اس کی تشہیر کردی جائے۔ انتظامیہ دکاندار یا دکان کے مالک کا نام ، رابطہ/ سیل نمبر ، رجسٹریشن نمبر اور شناختی کارڈ نمبر بھی دکان کی ایسی جگہ جو سب کے سامنے اور پڑھنے میں آئے، آویزاں کرنے کا پابند ہو۔ یہ ہی نہیں بلکہ انتظامیہ کے رابطہ نمبر آفس کا پتا مع ذمے دار کا نام بھی ایسی جگہ آویزاں کیا جائے کہ عام فرد اس کو دیکھ و پڑھ سکے۔ یہ ہی طریقہ ٹھیلے والوں پر بھی لاگو کیا جائے۔ اسی طرح انتظامیہ کے اہلکار کوالٹی اور قیمتوں پر عملدرآمد کے لیے مسلسل چکر لگاتے رہیں اور گاہکوں سے پوچھتے بھی رہیں کہ کوئی مسئلہ تو نہیں۔ اس طرح کافی حد تک شہری اذیت سے بچ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں یوسی و وارڈ کے منتخب نمائندوں سے بھی تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مجرموں کو سزا ملے، جرمانے ہوں یہ ہے حل۔ شرط اخلاص نیت اور رشوت خوری کی لعنت سے اجتناب۔ ان سب کو بھی ضابطے و قانون کی صف میں لائیں اور خود بھی ایمان دار سرکاری افسر و عملہ اس کی پاسداری کرے ان شاء اللہ پھر کسی بائیکاٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اللہ کریم ہمیں حلال روزی کمانے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔