رمضان المبارک اور ہم لوگ

595

رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کا اعلان رات دس بجے ہوا پھر مسجدوں کے لائوڈ اسپیکرز گونجنے لگے کہ نماز تراویح تیار ہے‘ جلدی جلد مسجد میں آجائیں۔ ہم جیسے ضعیف العمر لوگ جو رات دس بجے سونے اور رات کے آخری پہر اٹھنے کے عادی ہیں‘ اس سعادت سے محروم رہے۔ البتہ سحری کے وقت بچوں نے بتایا کہ لوگ رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے انتظار میں جاگ رہے تھے۔ انہیں یہ شک ہو گیا تھا کہ یہ تاخیر اس لیے ہو رہی ہے کہ کسی صورت چاند نکال لیا جائے ورنہ چاند نظر نہ آنے کا اعلان تو بلا تاخیر ہوسکتا تھا۔ بہرکیف مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور اس نے کئی مقامات سے رویت ہلال کی شہادتیں وصول کر لیں۔
یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور خبر آتے ایک لمحہ نہیں لگتا لیکن حیرت ہے کہ چاند نکلنے کی خبر اور شہادت آنے میں تین گھنٹے سے زیادہ لگ گئے اور اہلِ پاکستان انتظار کی سولی پر لٹکے رہے۔ تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وہ خطے کے تمام ممالک بھارت‘ بنگلا دیش‘ نیپال‘ سری لنکا اور ایران وغیرہ پر فوقیت لے گئے جہاں چاند نہیں دیکھا جاسکا‘ ان ملکوں میں جمعہ کو پہلا روز تھا۔ ہم لوگ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان سے ایک دن پہلے روزہ رکھ رہے ہیں ۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ یہ اعزاز ہم پہلے بھی حاصل کر چکے ہیں۔ جنرل ایوب خان کے زمانے کا واقعہ تو بہت مشہور ہے جب انہوں نے رات کے آخری پہر عید کا چاند نکال لیا تھا اور علمائے کرام نے اگلے دن نماز عید پڑھانے سے انکار کر دیا تو اس کی پاداش میں انہیں قید و بند کی سزا بھی بھگتنی پڑی تھیں۔
چھوڑیے اس قصے کو اب رمضان المبارک کی بات کرتے ہیں۔ رمضان المبارک ان دنوں میں آیا ہے جب موسم بہار رخصت ہو رہا ہے اور گرمیوں کی آمد آمد ہے۔ بعض میدانی علاقوں میں تو گرمی شروع بھی ہو گئی ہے تاہم رمضان المبارک بجائے خود نیکیوں کے موسمِ بہار کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے موجودہ موسم میں اس کی آمد نے اسے مزید خوش گوار بنا دیا ہے۔ یہ نیکی اور ثواب کمانے کا موسم ہے۔ مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ وہ لوگ بھی جو جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا بھی تکلف نہیں کرتے‘ رمضان کی برکت سے وہ موسمی نمازی بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روزہ رکھا ہے تو نماز بھی پڑھنی چاہیے۔ بات ان کی درست ہے کہ نماز کے بغیر روزے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ روزہ خفیہ عبادت ہے اور نماز اعلانیہ اور یہ اعلانیہ عبادت ہی روزے کو بامقصد بناتی ہے۔ بہت سے لوگ روزہ اس لیے بھی رکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے مطابق اس سے شوگر لیول بہتر ہوتا ہے‘ بلڈ پریشر اعتدال پر آتا ہے‘ جسم کی چربی پگھلتی ہے اور صحت بہتر ہوتی ہے اس طرح روزہ رکھنے سے جسم کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور ثواب بھی ملتا ہے۔ یعنی ہم خرما و ہم ثواب۔ لیکن عام لوگ اس طرح نہیں سوچتے۔ وہ بس یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے اور اللہ کے رسولؐ نے اس کی تاکید فرمائی ہے اس لیے
بشرط صحت ان پر روزہ رکھنا فرض ہے۔ نماز وہ پہلے سے پڑھ رہے ہوتے ہیں اس لیے روزے کے ساتھ نماز کی پابندی ان کے لیے مسئلہ نہیں بنتی‘ وہ تراویح بھی شوق سے پڑھتے ہیں البتہ جو لوگ گنڈے دار نماز پڑھتے ہیں یعنی کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی یا دن میں پانچ نمازوں کے بجائے اپنی سہولت کے مطابق دو‘ تین نمازیں پڑھ لیں باقی چھوڑ دیں‘ ان کے لیے بیس رکعت تراویح پڑھنا دشوار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ تراویح کی آٹھ رکعتیں پڑھ کر کھسک جاتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ رسول پاکؐ نے آٹھ رکعتیں ہی پڑھائی تھیں اور کبھی کبھی صرف تین دن‘ بیس رکعتیں تو بعد میں گھڑی گئی ہیں۔ ان کی یہ دلیل اس اعتبار سے درست ہے کہ تراویح میں بیس رکعتوں پر اتفاق سیدنا عمرؓ کے زمانے میں ہوا تھا مکہ و مدینہ میں آج بھی اس پر عمل ہو رہا ہے اور رمضان المبارک کے دوران بیس رکعتوں میں پورا قرآن سنایا جاتا ہے البتہ جن مساجد میں آٹھ رکعتیں باجماعت پڑھائی جاتی ہیں ان میں بھی پورا قرآن ہی پڑھایا جاتا ہے جو لوگ آٹھ رکعتیں پڑھنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان مساجد میں جا کر قیام اللیل کریں لیکن اکثر لوگ وہاں نہیں جاتے اور بیس رکعت والے امام کے پیچھے آٹھ رکعت پڑھ کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔ اس طرح رمضان المبارک کے دوران انہیں پورا قرآن سننا نصیب نہیں ہوتا۔ اسے آپ قیام اللیل کا شارٹ کٹ کہہ سکتے ہیں لیکن روزے میں شارٹ کٹ ممکن نہیں ہے۔ اس میں تو جان
بوجھ کر ایک قطرہ پانی بھی حلق سے اتار لیا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کا کفارہ پوری عمر کے روزوں سے بھی ادا نہیں ہو سکتا۔
لیجیے ہم کس بحث میں پڑ گئے۔ سادہ لوح مسلمانوں کو عبادات میں ہیرا پھیری نہیں آتی‘ وہ روزے بھی ذوق و شوق سے رکھتے ہیں اور بیس رکعت تراویح کی صورت میں قیام اللیل بھی ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ جب کہ رمضان المبارک میں روزانہ قرآن پاک کی تلاوت پر بھی خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ قرآن کے ہر ہر حرف پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ خود حضور پاکؐ نے وضاحت فرمائی ہے کہ ’’الم‘‘ ایک حرف نہیں بلکہ یہ تین حرفوں الف‘ لام اور میم کا مجموعہ ہے اور اس کے ہر حرف پر دس‘ دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ ثواب اپنی جگہ لیکن قرآن دراصل کتابِ ہدایت ہے۔ اس کا موضوع انسان ہے اور یہ انسانوں کو زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ دکھاتی ہے اور انہیں خیر و شر میں تمیز کرنا سکھاتی ہے۔ اب اگر قرآن پڑھنے والا اسے سمجھ کر نہیں پڑھتا تو اسے ثواب بلاشبہ مل جائے گا لیکن ہدایت سے محروم رہے گا۔ اگر اس نے قرآن کی ہدایت کے مطابق زندگی نہیں گزاری تو اسے قرآن کی تلاوت سے ملنے والا ثواب بھی رائیگاں جا سکتا ہے۔ رمضان المبارک قرآن کا مہینہ ہے اور اس کا پیغام یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کی ہدایت پر عمل کیا جائے اگر عربی نہیں آتی تو اس کے ترجمے سے رہنمائی حاصل کی جائے اور اس کی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے۔ تفسیروں میں’’تفہیم القرآن‘‘ اس کی بہترین تفسیر ہے‘ ہمیں چاہیے کہ رمضان کے دوران تفہیم القرآن کے مطالعے کو اپنا معمول بنائیں۔