پہلے ’’مائنس ون‘‘ پھر انتخابات؟

494

عدالت عظمیٰ نے بظاہر 90 دن میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کرانے کا حکم دے کر آئین کی بالادستی قائم کردی ہے۔ پنجاب میں انتخابی شیڈول کا بھی اعلان ہوچکا ہے لیکن حکومت کے تیور سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ جائے گا اور وہ کچھ ایسا منتر پڑھے گی کہ سارا منظر بدل جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی کرتا دھرتا مریم نواز صاحبہ اگرچہ اس وقت انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور پنجاب کے لوگوں سے اپنی پارٹی کے لیے ووٹ مانگ رہی ہیں لیکن عملاً ان کی مہم انتخابات رکوانے کے لیے ہے۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ جب تک ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں ہوتے انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ ان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا پلڑا اپنی بے وزنی کے سبب اُٹھا ہوا ہے جبکہ ان کی حریف تحریک انصاف کا پلڑا اپنے وزن کے سبب بھاری اور جھکا ہوا ہے۔ اس لیے جب تک اس کا وزن کم نہیں کیا جاتا اور دونوں پلڑے برابر نہیں ہوتے انتخابات کرانا سراسر ناانصافی ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تحریک انصاف کا پلڑا اس لیے بھاری ہے کہ اس میں خود عمران خان بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت کی سرتوڑ کوشش ہے کہ پلڑے میں عمران خان کو مائنس کرکے ترازو کے دونوں پلڑوں کو برابر کرلیا جائے پھر بے شک انتخابات ہوتے رہیں کوئی پروا نہیں۔ ’’مائنس ون‘‘ کے اس فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عمران خان کے خلاف ایک دو نہیں 78 مقدمات درج ہوچکے ہیں جن میں سے بعض مقدمات میں انہیں نااہل قرار دیا جاسکتا ہے اور بعض مقدمات میں قید و جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ خان صاحب نے بعض مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کرالی ہے لیکن کئی مقدمات ایسے ہیں جن میں ان کے بلا ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں اور پولیس انہیں گرفتار کرنے کے لیے زمان پارک لاہور میں بار بار ان کے گھر کا محاصرہ کررہی ہے۔ ان کے گھر کے باہر تحریک انصاف کے کارکنوں کا ہجوم ہے جو پولیس کی خان صاحب تک رسائی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چند روز پہلے فریقین کے درمیان شدید تصادم ہوا۔ پولیس نے بس فائرنگ نہیں کی لیکن لاٹھی چارج سمیت تشدد کا تمام حربہ آزمایا۔ اس تشدد کے نتیجے میں تحریک انصاف کا ایک کارکن بھی جاں بحق ہوگیا لیکن پولیس خان صاحب پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہی۔
خان صاحب عدالتوں میں بھی اس لیے پیش نہیں ہورہے کہ عدالتوں کے اندر یا باہر انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے یا ان کی جان لینے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے ان کے وکیل بابر اعوان نے بڑے لرزہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ خان کے مخالفین اور ناقدین ان کا یہ کہہ کر مذاق اُڑا رہے ہیں کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے چوہے کی طرح چھپتے پھر رہے ہیں حالاں کہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے انہیں ازخود گرفتاری پیش کردینی چاہیے اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے پولیس وین میں بیٹھ جانا چاہیے لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ خان صاحب کو دراصل مکافات عمل کا سامنا ہے۔ انہوں نے رانا ثنا اللہ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اب رانا صاحب بھی جو خیر سے وزیرداخلہ ہیں ان کے ساتھ وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ انہیں جیل کی اسی کوٹھڑی میں رکھنا چاہتے ہیں جہاں وہ خود بند رہ چکے ہیں اور ان کے ساتھ وہی ’’حسن سلوک‘‘ کرنا چاہتے ہیں جو وہ خود بھگت چکے ہیں۔ خان صاحب بس اس بات سے ڈرتے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک دفعہ وہ رانا ثنا اللہ کے ہتھے چڑھ گئے تو جیل سے صحیح سالم واپسی ان کے لیے مشکل ہوجائے گی۔ اگر واپس آ بھی گئے تو نااہلی ان کا مقدر بن چکی ہوگی کہ نااہلی کا مقدمہ بڑی تیزی سے ان کا تعاقب کررہا ہے۔ خان صاحب ان تمام انہونیوں سے بچنے کے لیے اپنے تمام حربے آزمارہے ہیں لیکن حکومت نے بھی طے کر رکھا ہے کہ وہ خان صاحب کو مائنس کرکے دم لے گی۔ جب تک وہ مائنس نہیں ہوتے، انتخابات کے انعقاد کا معاملہ شکوک و شبہات کی گرد میں لپٹا رہے گا۔
مولانا فضل الرحمن عمران خان کی حکومت کو ایک دن کے لیے بھی برداشت کرنے کو تیار نہ تھے، صاف کہہ دیا ہے کہ خیبر پختون خوا جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں انتخابات ہو ہی نہیں سکتے، وہ منطق کے بادشاہ ہیں ان کی یہ منطق بڑا وزن رکھتی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دے کر بظاہر آئین کو سربلند کردیا ہے لیکن یہی عدالت عظمیٰ تھی جس نے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو کس آئین کے تحت تین سال کے اندر عام انتخابات کرانے کی رعایت دی تھی۔ حضرت مولانا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو بھی تین سال نہ سہی سال دو سال کی رعایت تو ضرور ملنی چاہیے۔ سنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے بھی ان کی اس منطق پر سنجیدگی سے غور کیا ہے وہ صوبائی انتخابات ہی نہیں مرکزی انتخابات کو بھی سال دو سال کے لیے ٹالنا چاہتی ہے تا کہ اس عرصے میں مائنس ون کا عمل کسی صورت مکمل ہوسکے لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کو غیر فطری انداز میں مائنس کیا گیا تو وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہوجائیں گے اور حکومت کی اتحادی جماعتیں سر پیٹتی رہ جائیں گی۔ البتہ انہیں فطری انداز میں مائنس کیا جاسکتا ہے اور وہ فطری انداز یہ ہے کہ حکومت سے وابستہ تمام سیاستدان اور سرمایہ کار اپنی تجوریوں اور تہہ خانوں میں چھپائے گئے اربوں ڈالر پاکستان کے قدموں میں ڈھیر کردیں، ان کی جو دولت بیرونی بینکوں میں ہے وہ بھی واپس لے آئیں اور آئی ایم ایف کا احسان قبول کرنے سے انکار کردیں۔ جبکہ وزیراعظم ہائوس کے لیے مزید فنڈز طلب کرنے کے بجائے اس کے اخراجات کو زیرو کردیں۔ ارکان پارلیمنٹ بھی تنخواہیں اور مراعات لینے کے بجائے مفت کام کرنے کا اعلان کریں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ان کی کابینہ کے تمام ارکان تنخواہ نہیں لیں گے اور یوٹیلیٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں گے لیکن ابھی تک کابینہ ڈویژن نے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا نہ فنانس ڈویژن نے کابینہ ارکان کی تنخواہیں روکنے کی کوئی سمری تیار کی ہے، سب کچھ حسب سابق چل رہا ہے۔ اسی طرح عوام کے احتجاج کے باوجود ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کو مفت پٹرول فراہم کیا جارہا ہے اور یہ لوگ پاکستان کے لیے اپنی مراعات میں ذرا سی کمی کرنے کو تیار نہیں۔
ایسے میں عمران خان اگر مائنس ہو بھی گئے تو عوام کے غیظ و غضب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور انتخابات کا نتیجہ مخالفین عمران خان کی توقعات کے برعکس ظاہر ہوگا۔ اس لیے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ عمران خان کو مائنس کرنے کے بعد بھی انتخابات کرانے کی غلطی نہ کی جائے۔