ایران سعودی عرب معاہدہ،چین کا سرپرائز؟

624

سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ نے بیجنگ میں ایک ایسے تاریخی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جو برسوں سے اختلافات اور کھلی وپراکسی جنگوں سے زخم زخم مسلمان دنیا کے تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔ دونوں ملکوں نے اس معاہدے میں ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنے اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا عہد کیا ہے جو آنے والے دنوں کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا کی ثالثی اور سہولت کاری سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں ایران کو خطرے کا سا نشان قرار دیتے ہوئے دونوں ملکوں نے باہمی احترام اور تعاون کا عہد کیا تھا۔ اس کے بعد ہی سے چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان دیرینہ مخاصمت کے خاتمے کے لیے پس پردہ فعال کردار کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ حقیقت میں سعودی اسرائیل معاہدے اور خود امریکا سے ایران کارڈ چھیننے کی ایک کوشش بھی تھی کیونکہ مشرق وسطیٰ میں عرب ملکوں کو محض ایران کے خطرے کا احساس دلا کر اور بڑھا کر اپنے پالیسیوں کی حمایت پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اس تصور میں عربوں کے لیے اسرائیل ایک مہربان کردار اور ایران سروں پر لٹکنے والی ایک خطرناک تلوار تھی۔ چین نے سعودی عرب اور ایران میں دشمنی کے اس تصور کو تبدیل کرکے ایران کارڈ کو غیر موثر بنانے کی منصوبہ بندی بہت گہرے اور معنی خیز انداز میں جاری رکھی جس کا نتیجہ بیجنگ معاہدے کی صورت برآمد ہوا۔ اس معاہدے کی تصویر پوری دنیا میںگردش کررہی ہے جس میں سعودی عرب اور ایرا ن کے نمائندوں کے درمیان چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی بہت اعتماد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ تصویر دنیا کو پیغام دے رہی ہے کہ چین عالمی ڈپلومیسی میں ایسے کرشمے بھی دکھا سکتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران اپنے اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولیں گے اور سیکورٹی تعاون کے پرانے معاہدات پر عمل درآمد کا آغاز کریں گے۔
سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات کا خاتمہ 2016 میں اس وقت ہوا تھا جب سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم دین کو سزائے موت دینے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ جس کے بعد سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے اپنا سفارتی عملہ واپس بلا لیا تھا۔ جس کے بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا تھا۔ یمن میں ہونے والی خانہ جنگی نے دونوں ملکوں کو زور آزمائی کا ایک نیا میدان فراہم کیا تھا۔ شام میں ہونے والی خانہ جنگی میں بھی دونوں ملک اپنا اپنا مورچہ مضبوط کرنے کی کشمکش کا شکار ہو گئے تھے۔ اس ماحول کا سب سے زیادہ فائدہ امریکا اور اسرائیل کو ہورہا تھا اور وہ سعودی عرب سمیت دیگر ملکوں کو ایران کے خطرے کا سائرن بجاکر ان کے تحفظ کا ایک ایسا نظام وضع دینا چاہتا تھا جس میں اسرائیل کا کردار گہرا ہو۔ گویا کہ جو اسرائیل فلسطین میں عربوں اور مسلمانوں کا قتل عام کر رہا تھا وہ سعودی عرب میں عربوں اور مسلمانوں کا ٹھیکے دار بن کر سامنے آرہا تھا۔
امریکا نے سعودی عرب کے تحفظ کے نام پر جو سیکورٹی چھتری تیار کی تھی اسرائیل اس کا حصہ تھا۔ اسی مقصد کے لیے امریکا نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان اسرائیل کو براہ راست تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی ایک معاہدہ کرایا تھا۔ یہ دودھ کی رکھوالی پر بلا والی مثال تھی۔ چین نے مشرق وسطیٰ کے اس دفاعی ڈاکٹرائن کے نیچے سے قالین ہی کھینچ لی۔ گویا جس ایران کے خطرے کے نام پر عربوں کو ڈرا ڈرا کر اپنے پروں تلے چھپایا جا رہا تھا اس ایران نے ایک اہم حریف ملک کی خودمختاری کا احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا اعلان کردیا اور یوں ایرانی خطرے کی فلاسفی بے اثر ہو گئی۔
2001 میں ایران اور سعودی عرب سیکورٹی تعاون کے معاہدات کر چکے تھے مگر کوئی طاقت ایسی تھی جو ان معاہدات کو بے اثر بنائے ہوئے تھے اب بیجنگ معاہدے میں ان پرانے معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کا عزم بھی دہرایا گیا۔ یوں سعودی عرب اب اپنے تحفظ کے لیے سیکورٹی چھتری کا محتاج نہیں رہا اور اپنے بل بوتے پر اپنے دفاعی فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ آج دنیا کے لیے صرف ایک یوکرین کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ مختلف خطوں میں اپنے اپنے مسائل ہیں۔ ان کا ملک چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی قسمت کے فیصلے کا اختیار وہاں کے عوام کو ہونا چاہیے۔ اسرائیل کے اخبارات اور تجزیہ نگاروں نے اسے ایک بڑا بریک تھرو قرار دیا۔ سابق اسرائلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نیتو کھل کر کہا کہ اس معاہدہ کے اثرات اسرائیل پر پڑیں گے۔ اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگار اسے گریٹر مشرق وسطیٰ کی تشکیل کے زاویے سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں خلیج کے دو بڑے اور برسوں کے حریفوں کے درمیان معاہدہ بے سبب نہیں بلکہ آگے چل کر یہ کسی بڑی اور وسیع شکل میں بھی ڈھل سکتا ہے۔ اس معاہدے کے دور رس اثرات تو آنے والے وقتوں میں واضح ہوتے چلے جائیں گے مگر اس کا ایک فوری اثر مسلمان ملکوں میں ان دونوں ملکوں کی سرد جنگ میں کمی ہے اور پاکستان ان ملکوں میں سرِ فہرست ہے۔ پاکستان نے کئی دہائیوں تک ایران سعودی کشمکش کے مضر اثرات کا سامنا کیا ہے۔ بدترین دہشت گردی نے پاکستان میں ماردھاڑ کا ایک بھرپور ماحول بنائے رکھا اور اس بے مقصد لڑائی میں ہزاروں معصوم افراد لقمہ ٔ اجل بنے۔ جن میں معاشرے کے نامور لوگ دانشور اسکالر ادیب شاعر تاجر سیاست دان سب شامل تھے۔ نوے کی دہائی میں پاکستان کے اُجڑنے کا آغاز اسی پراکسی جنگ سے ہوا جس میں دو مسلمان ملک اپنے مفاد کی جنگ پاکستان میں لڑتے رہے۔ شاید اس جنگ میں انہیں دھکیلا جارہا تھا مگر اس کا میدان پاکستان تھا اور خود پاکستان کا حلیہ اس جنگ میں بگڑتا جا رہا تھا۔ یہی دوسرے مسلمان ملکوں کا تھا جہاں ایران اور سعودی عرب کی حمایت کی لکیر کی بنیاد پر ملیشیائیں وجود میں آتی تھیں اور پھر ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر تباہی پھیلاتی تھیں۔ گزشتہ چند برسوں سے یہ منظرنامہ بدلنا شروع ہوگیا تھا اور یمن اور شام کی جنگوں کے باوجود یہ اثرات دوسرے ملکوں میں زیادہ پھیلنے نہیں پائے۔ اب دونوں ملکوں کے معاہدے سے خونیں تقسیم کا یہ عمل رک جانے کی امید ہے بلکہ برسوں کے زخم مندمل ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔