پاکستان، حکمرانوں کا توشہ خانہ

1584

پاکستانی حکمرانوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں اور ملک کے اقتدار کی ذمے داری ان جیسوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ ثابت تو پہلے بھی ہوچکا ہے لیکن اس مرتبہ یہ کام پاکستانی قوم کے مال پر ہاتھ صاف کرنے والوں میں زیادہ بڑا حصہ رکھنے والوں سے ہی کروادیا گیا ہے۔ یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان میں توشہ خانہ کا 2022ء سے اب تک کا ریکارڈ عام کرنے کا اصل مقصد اور فیصلہ کس کا ہے، لیکن یہ کام کیا تو شہباز حکومت نے ہے اور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس سے حکومت کا مقصد شاید یہ ہوکہ توشہ خانہ سے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لیے گئے تحائف کی تفصیل عام کرکے انہیں مزید بدنام کیا جائے لیکن اس کام میں پی ڈی ایم اور اس کی حلیف پیپلز پارٹی بھی لپیٹ میں آگئے۔ توشہ خانہ کا ریکارڈ عام نہ کیا جاتا تو بھی پاکستانی حکمرانوں کے امین اور صادق ہونے کے بارے میں پاکستانی قوم کسی بھی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے۔ دراصل یہ جنگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گالیاں دینے کے مقابلے کی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عمران خان کو چور کہنے والے توشہ خانہ سے چیزیں لے کر ذاتی استعمال میں لانے کا الزام لگانے والے خود بھی یہ کام کرتے رہے ہیں اور ان سب کو چور کہنے والے عمران خان بھی اسی طرح رنگے ہوئے نکلے جس طرح نواز، شہباز، زرداری اور جنرل پرویز نکلے۔ پاکستانی صدور اور وزرائے اعظم کو ملنے والا ہر تحفہ توشہ خانہ میں جمع ہوتا ہے لیکن پاکستانی جرنیلوں، اسٹیبلشمٹ کے اہم عہددیداروں، وفاقی سیکرٹریوں وغیرہ کو ملنے والے تحائف کا اس میں ذکر ہے یا نہیں اور ہے تو کیا وہ بھی اسی طرح عام کیا گیا ہے۔ حکمران جو کئی ماہ سے عمران خان کو چور کہہ رہے تھے اور یہ جانتے تھے کہ ان کے لیڈروں نے بھی توشہ خانہ پر پوری طرح ہاتھ صاف کیے ہیں جس طرح عمران خان نے کیے ہیں لیکن ایک دوسرے کی ضد میں اسے نیچا دکھانے کے چکر میں ان لوگوں نے تمام حدود عبور کر لی تھیں۔ اب توشہ خانہ کا ریکارڈ سامنے آنے کے بعد مریم نواز کس منہ سے عمران خان کو چور کہہ سکیں گی کہ وہ بھی ان کے والد محترم نواز شریف کے برابر ہی نکلے۔ اور پیپلز پارٹی والے بھی کس طرح صرف عمران خان کو نشانہ بنائیں گے۔ اس فہرست میں طائرانہ طور پر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کا حصہ آصف زرداری اور نواز و شہباز کے مقابلے میں کم ہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عمران کم اور یہ تینوں حکمران یا جنرل پرویز زیادہ کرپٹ تھے۔ بلکہ جنرل پرویز کو 8 سال ملے۔ نواز شریف کو آٹھ دس سال ملے، آصف زرداری کو براہ راست پانچ سال اور بے نظیر کے ساتھ بھی کئی سال مواقعے ملے اور راجا پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی وغیرہ میر ظفر اللہ جمالی کو کم موقع ملا۔ یعنی مقابلہ ایمانداری کا نہیں عمران خان کو بھی موقع کم ملا۔ انہیں بھی پورے پانچ سال ملتے تو مقابلہ زیادہ سخت ہوتا۔ پاکستان میں امانت و دیانت کی مثالیں قائم کرنے والے سیاسی رہنما امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صوبہ سرحد کے وزیر خزانہ کے طور پر یہ ثابت کرچکے کہ امانت داری کیا ہوتی ہے۔ وہ گزشتہ کئی مہینوں سے کہہ رہے ہیں کہ ملک کا مسئلہ افراد کو اچھا اور برا ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ وہ نظام اختیار کرنا ہے جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ لیکن ہمارے حکمران پاکستان کے قیام کے مقاصد کے حصول کی جانب تو ایک قدم بھی نہیں بڑھاتے، طرح طرح کے نظام کا تجربہ کرتے رہتے ہیں اور پھر رونا روتے ہیں کہ ملک کو کرپشن کھا گئی۔ حالاں کہ ملک کو اس کے مقاصد کے مطابق نہ چلانے کی کرپشن نے یہ دن دکھائے ہیں۔ سراج الحق صاحب نے یہ بھی کہا کہ بدعنوانی میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ہیں، ان تینوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا اور آج یہ سب پاک صاف بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ توشہ خانہ سے تحائف لینے کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں وہ تو تحائف ہتھیانے کی غرض سے وضع کیے گئے تھے اس لیے ان کو ہتھیانے کے لیے جو جواز دیا جارہا ہے کہ ہم نے تو قیمت ادا کرکے تحفے لیے ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اسولوں پر سودے بازی نہیں کرتے بلکہ سودے بازی کرکے ان کے مطابق اصول وضع کرلیتے ہیں۔ توشہ خانہ کا ریکارڈ عام کرنے کے باوجود ان سیاستدانوں کا کچھ نہیں بگڑے گا، یہ بڑے فخر سے توشہ خانہ اور سرکاری مال کو ہڑپ کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے لیڈر تو ٹی وی پر آکر کہتے ہیں کہ کرپشن ہمارا حق ہے، ایسے لوگ اس ملک کو کیا دیں گے۔ ان لوگوں نے توشہ خانہ کو نہیں لوٹا بلکہ پاکستان کو توشہ خانہ بنا رکھا ہے۔ ان سے نجات ہی میں ملک کی نجات ہے۔