قومی سیاست میں جھوٹ کا غلبہ

723

قومی سیاست میں جھوٹ کا بول بالا ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر جانب سے جھوٹ اس طرح بولا جا رہا ہے کہ قوم ذہنی خلجان کا شکار ہو گئی ہے ۔ یہ رواج عموماً پاکستانی سیاستدانوں میں ابتداء ہی سے رہا ہے لیکن گزشتہ دس پندرہ برس سے تو انتہا ہوتی جا رہی ہے خاص طور پر میاں نواز شریف کے آخری دور سے یہ روایت انتہا سے آگے جا چکی ہے ۔ لاہور میں پی ٹی آئی اورطاہر القادری کے کارکنوں پرفائرنگ اور ہلاکتوں کے بعد سے براہ راست وزیر اعلیٰ ، وزیر داخلہ اور وزراء پر مقدمات قائم کر دیے گئے ۔اس کے بعد نواز شریف پر پانامہ میں کمپنیوں کا الزام عاید کر دیا گیا ۔ ان کی حکومت ختم ہو گئی اور تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو گئی اور جس کے ساتھ قائم ہوئی اسے خود تحریک انصاف کے سربراہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے رہے ہیں اور اب وہ تحریک انصاف کے صدر بھی بن گئے ۔ لاہور فائرنگ واقعے کا بھی تحریک انصاف کے چار سالہ دور میں فیصلہ نہیں ہو سکا ۔ میاں نواز شریف پانامہ میں حکومت سے گئے اور اقامہ کے معاملے میں نا اہل قرار پائے ۔ یہی نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹ کر قومی دولت نکلوانے کے اعلانات کرتے تھے پھر ان دونوں کے پیٹ پھاڑ کر قومی دولت اگلوانے کا دعویٰ عمران خان کرتے رہے ۔ پی پی پی اور مسلم لیگ تو ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہتے ہی تھے لیکن عمران خان دونوں کو چور ڈاکو ، لٹیرا کہتے تھے۔ نہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر ملکی دولت نکالی نہ شہباز شریف نے آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹا ۔ بلکہ یہ دونوں عمران خان کو نکالنے کے لیے ایک ہو گئے ۔ الزامات ، جوابی الزامات ، مقدمات اور ایک دوسرے کے خلاف انتہا درجے تک جانے کے بعد یہ لوگ کوئی الزام ثابت نہیں کرتے بلکہ مک مکا کرتے ہیں ایک دوسرے سے معاملات طے کرتے ہیں اور لے دے کر بقائے باہمی کے اصول کے تحت سیاست کرتے ہیں ۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے کے عہدیداروں اور لیڈروں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ۔قوم کو یاد بھی نہیں رہتا کہ شاہ محمود قریشی کس کس پارٹی کا سفر کرتے ہوئے تحریک انصاف تک پہنچے ۔ فواد چودھری کس پارٹی کی پیداوار ہیں اور فردوس عاشق اعوان کون۔اور شیخ رشید کہاں سے آئے ہیں۔کتنے مسلم لیگی پیپلزپارٹی میں اور کتنے ہی پیپلز پارٹی والے مسلم لیگ میں چلے گئے ۔ ان دونوں کو چور کہنے والے اور ان دونوں کے چوروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے والے عمران خان اب بھی ان دونوں کو چور ہی قرار دے رہے ہیں ۔ چار سالہ دور حکومت میں کوئی ایک الزام بھی ثابت نہ کرسکے ۔ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے بغیر ان کی پنجاب اور مرکز کی حکومت نہیں بن سکتی تھی اسے بھی انعام دے دیا گیا ۔ دوسری طرف پاکستانی فوجی قیادت المعروف اسٹیبلشمنٹ ہے جس کا پچھلا بیانیہ اگلے کے بالکل متضادہوتا ہے ۔ ہر حکومت کو وہ خود لاتے ہیں ۔ خود نکالتے ہیں ۔ خود کامیاب قرار دیتے اور دلواتے ہیں اور خود ناکام بناتے ہیں کسی زمانے میں تو صرف اتنا ہوتا تھا کہ جدو جہد کرنے والے بے اختیار کہہ اٹھتے تھے کہ
نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
اور اس نیرنگئی سیاست نے نیرنگی سے بدرنگی تک کا سفر اس طرح طے کیا اور اب ہر روز نیا دعویٰ نیا الزام نیا جھوٹ نیا جوابی الزام نیا جھوٹ سامنے آ رہا ہے اب تو ان تینوں سیاسی گروپوں کے کسی دعوے الزام اور وعدے پر یقین نہیں کیاجا سکتا۔ اخلاقی گراوٹ کا عالم یہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگتے تھے ۔ اب لاشوں پر ڈھٹائی کے ساتھ سیاست ہو رہی ہے ۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے کارکنوں کی ریلی میں پی ٹی آئی کے کارکن کی حادثاتی موت پر بھی سیاست ہو رہی ہے ۔ اس میں بھی کسی بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا ۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے کارکن ظل شاہ کی ہلاکت تشدد سے ہوئی ہے ۔ اور نگراں حکومت اس کی ذمے دار ہے ۔ نگراں حکومت نے پی ٹی آئی پنجاب کے وائس چیئر مین راجا شکیل کی گاڑی سے ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے اور راجا شکیل کے ڈرائیور کا بیان بھی ریکارڈ کر دیا گیا ہے اب پی ٹی آئی والے عدالتی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ اگر یہ کمیشن تشکیل بھی دے دیا گیا تو بھی وقت قوم کا ضائع ہوگا ۔ قتل کا الزام پولیس پر ثابت ہو جائے یا راجا شکیل کے ڈرائیور پر قوم کو کچھ نہیں ملے گا ۔ ظل شاہ تو واپس نہیں آئے گا ۔ ہاں دونوں پارٹیوں میں سے کسی ایک گروہ کے نمبر بنیںگے ۔ پی ٹی آئی کے چیئر مین اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکا ، پی ڈی ایم، جنرل باجوہ ، پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ اور اب تاجروں پر لگا رہے ہیں ۔قوم ان میں سے کسی الزام کو درست تصور کرے ۔ جس وقت مسلم لیگ کی حکومت تھی پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں دھرنا شرور کیا اور چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہو گیا تھا تو حکومت نے پی ٹی آئی کو گوادر اور سی پیک کا دشمن قرار دیا تھا ۔جب پی ٹی آئی کی حکومت نہیں بنی تھی تو وہ آئی ایم ایف جانے کو خود کشی کہتی تھی لیکن حکومت میں آتے ہی آئی ایم ایف کے پاس چلی گئی ۔ آج پی ڈی ایم والے اسی پی ٹی آئی کو آئی ایم ایف پروگرام کا مخالف قرار دے رہے ہیں ۔اگر ان سیاسی گروہوں کے الزامات اور دعوئوں کی فہرست بنا کر ان کے کارکنوں اور خود ان کو بھی دی جائے تو وہ یقین کے ساتھ کسی ایک موقف پر قائم نہیں رہ سکیں گے ۔ تو پھر عوام کو کیا الزام دیا جائے ۔ا صل مجرم تو پاکستانی اخبارات ، ٹی وی چینلز اور نام نہاد تجزیہ نگار ہیں اور ان سب کو چلانے والے مقتدر ادارے ہیں جن کی وجہ سے قوم پر کبھی پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے والے نواز شریف کا سحر طاری کیا جاتا ہے کبھی بھٹو اور بے نظیر کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے اور کبھی تبدیلی کا سونامی لایا جاتا ہے ۔ اور سونامی اپنی خصوصیت کے مطابق پہلے سب کچھ بہا لے جاتا ہے پھر پانی ساری غلاظت اور گند چھوڑ کر اپنی جگہ واپس جا بیٹھتا ہے ۔ یہی کام پاکستانی سیاست میں کیا جارہا ہے ۔ آج کل پی ٹی آئی رہنما عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مجھے قتل کر کے یا دھماکا کر کے انتخابات ملتوی کرا دیے جائیں ۔ پاکستانی سیاست میں یہ ممکن بھی ہے اور یسا ہو بھی چکا ہے ۔ لیکن ایسے منصوبے قبل از وقت طشت ازہام نہیں ہوتے ۔ بے نظیر بھٹو ، جنرل ضیاء الحق ، لیاقت علی خان میں سے کسی کو بھی اپنے قتل کے منصوبے کی پہلے سے خبر نہیں تھی ۔لیکن پی ٹی آئی چیئر مین کو ہر بات کی پہلے سے خبر ہوتی ہے کہ میرے خلاف ویڈیو آنے والی ہے۔ عدالت میرے خلاف فیصلہ دینے والی ہے۔الیکشن کمیشن مجھے نااہل کرنے والا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ بعد میں پچھلے دعوے سے پھر جاتے ہیں ۔ اگر یہ سیاسی رہنما اپنے الزامات اور دعوئوں کا تجزیہ نہیں کرتے تو کم از کم قوم ہی ان دعوئوں اور الزامات کا تجزیہ کرے اور حق تک خود پہنچنے کی کوشش کرے ورنہ اسی طرح اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے ۔