سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی: ’’عالمی بحران‘‘

544

سمندر طویل عرصے سے انسانوں کے لیے رزق کا ذریعہ اور حیرت کا باعث رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی احساس ہوگیا ہے کہ ہم نے سمندروں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے، اور کس طرح ہمارے اقدامات، خاص طور پر مغربی دنیا کے اقدامات سنگین سمندری آلودگی اور تباہی کا باعث بنے ہیں۔ اس وقت سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی پر پوری دنیا کو تشویش ہے۔ اس سے سمندری حیات پر تشویشناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کام کرنے والے امریکی ادارے کی حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر پلاسٹک کی آلودگی کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2040ء تک سمندروں میں داخل ہونے والے پلاسٹک کی مقدار تین گنا بڑھ سکتی ہے۔ بتایا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق سمندروں میں 2019ء تک 171 ٹریلین پلاسٹک موجود تھا۔ تحقیق میں پیش گوئی کی گئی کہ اگر عالمی سطح پر پالیسیاں متعارف نہ کروائی گئیں تو 2040ء تک سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی میں 2.6 فی صد اضافہ ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں 1979ء سے 2019ء کے دوران 6 بڑے بحری علاقوں کے 11 ہزار 777 سمندری اسٹیشنوں سے پلاسٹک کی آلودگی کے اعدادو شمار اکٹھے کیے گئے۔ یہ ایک بار پھر سخت انتباہ اور یاد دہانی ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی کا بحران انسان، حیوان، چرند پرند کے لیے بڑا خطرہ ہے اور اسے بڑھنے سے روکا جائے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ نے گزشتہ سال یوراگوئے میں پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد اگلے سال کے آخر تک پلاسٹک کو روکنے کے لیے قانونی طور پر معاہدہ تیار کرنا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 4 ملین سے 12 ملین ٹن پلاسٹک کا فضلہ سمندر میں داخل ہوتا ہے، یعنی پلاسٹک سے بھرے کوڑے کے ٹرک کے برابر فضلہ ہر منٹ میں سمندر میں داخل ہوتا ہے۔ یہ پلاسٹک سمندری زندگی اور ماحولیاتی نظام پر تباہ کن اثرات مرتب کررہا ہے۔ مائیکرو پلاسٹک سمندروں کے لیے انتہائی خطرناک ہے، جو نہ صرف پانی کو آلودہ کرتے ہیں بلکہ پلاسٹک کے ملبے کو سمندری جانور خوراک سمجھ کر کھا جاتے ہیں جس سے ان کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سمندری آلودگی کے اہم ذرائع میں صنعتوں کے گندے پانی کا اخراج اور ٹھوس فضلہ کو سمندر میں ٹھکانے لگانا شامل ہے۔ تاہم سمندر میں داخل ہونے والے پلاسٹک کا ایک بڑا حصہ بحری جہازوں اور غیر ملکی تیل اور گیس کی تنصیبات سے بھی آتا ہے۔ انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن (آئی ایم او) کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 80 فی صد سمندری پلاسٹک جہازوں سے آتا ہے۔ ہمارے سمندر کا پانی تیس چالیس سال قبل نیلے رنگ کا تھا اور اس میں بڑی مچھلیوں کو بھی دیکھا جاسکتا تھا، آج سمندری مخلوق ناپید ہوتی جارہی ہے کیونکہ بندرگاہ 100 فی صد آلودہ ہوچکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق یومیہ 40 لاکھ گیلن میونسپل اور صنعتی فضلہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سمندری آلودگی کی بڑی وجہ مغرب اور اس کی نام نہاد جدیدیت ہے جس نے انسان کو فطرت سے دور کردیا ہے۔ مسئلہ صرف پلاسٹک کا نہیں بلکہ ہمارے پورے اقتصادی تصور اور اس کی بنیاد پر طرزِحیات کا ہے کہ چیزیں استعمال کرکے پھینک دی جاتی ہیں، اور ایک ڈسپوزل نظام رائج ہے جو ہمارے کرئہ ارض کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے، اور یہ خطرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ خود مغرب کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے، اس کے اندر سے تحریکیں اور آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ اس لیے مغرب کو سمندری آلودگی پیدا کرنے میں اپنے کردار کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے، آلودگی کی وجوہات کم کرنے کے ساتھ اقتصادی ماڈل تبدیل کرنے پر بھی تیزی سے سوچنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کو اپنی سمندری آلودگی کم کرنے کی کوششوں میں مالی مدد اور تکنیکی مہارت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت پوری دنیا کو مل کر سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنے کے لیے پالیسیاں بنانی اور قانون سازی کرنی چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔ صنعتی و کاروباری اداروں کو اپنے پلاسٹک کے فضلے کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے اور اسے درست طریقے سے ری سائیکل یا ٹھکانے لگانے کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کی آلودگی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کئی تکنیکی حل بھی موجود ہیں۔ پلاسٹک کے کچرے کو مفید مصنوعات میں تبدیل کرنے کے لیے پلاسٹک سے ایندھن کی تبدیلی کے حل بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ پلاسٹک کو کارآمد بنانے اور پلاسٹک کی بڑھتی ہوئی آلودگی کو قابو کرنے کے لیے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا ایک بہتر طریقہ اس کا تعمیراتی صنعت میں استعمال ہے۔ اسلام آباد میں پلاسٹک کی سڑک کی ایک مثال موجود ہے، اس طرح اینٹیں اور چھت کی ٹائلوں کے علاوہ دیگر ضروری تعمیراتی اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔ ایک جاپانی کمپنی تو ایسی مشین بیچ رہی ہے جو گھریلو سطح پر استعمال ہونے والے پلاسٹک کے کچرے کو ایندھن میں آسانی سے تبدیل کر سکتی ہے۔ سنگاپور کے سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے مصنوعی دھوپ کا استعمال کرکے پلاسٹک کو تبدیل کیا اور اس سے ایندھن بنایا ہے۔ یہ واضح ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی کا مسئلہ بڑھ رہا ہے ختم نہیں ہو رہا، اگر فوری عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صورتِ حال وقت کے ساتھ مزید خراب ہوگی، ہمیں سمندر میں داخل ہونے والے پلاسٹک کی مقدار کو کم کرنے کے لیے ابھی سے کام کرنا چاہیے، ورنہ 2040ء تک سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی کی مقدار تین گنا بڑھنے کے بعد کیا صورت ِحال ہوگی، اس کا اندازہ ابھی سے کیا جاسکتا ہے۔