قول و فعل کا تضاد

353

الیکشن کمیشن نے صوبہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں انتخابات ہونا لازم ہیں جبکہ اس سے قبل وفاقی حکومت اس بات سے مسلسل انکار کررہی تھی کہ وقت سے پہلے انتخابات کرائے جائیں۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے معزول ہونے والے وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے لیے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے روک دیا۔ اس کے بعد سے اقتدار سے حزب اختلاف میں جانے والی تحریک انصاف نئے انتخابات اور عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کا مطالبہ کررہی تھی۔ حکومت پر سیاسی دبائو ڈالنے کے لیے تحریک انصاف اپنی دو صوبائی حکومتوں کی قربانی کا فیصلہ کیا اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرادیں۔ اس فیصلے کے بعد حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اس بارے میں کشمکش شروع ہوگئی کہ نئے انتخابات کب ہوں۔ حکومتی اتحاد کے تین کلیدی قائدین وقت سے پہلے انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ حکومت مسلسل انتخاب کرانے سے انکار کررہی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ نے سیکورٹی انتظامات اور وفاقی وزارت خزانہ نے انتخابی اخراجات کے لیے فنڈز دینے سے انکار کیا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی عدالت عظمیٰ کے سامنے یہی عذر پیش کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کی مشاورت سے صوبہ پنجاب کی تاریخ صدر پاکستان نے دے دی لیکن گورنر کے پی کے اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس لیے کہ گورنر کے پی کے کی سیاسی وابستگی حکمران پی ڈی ایم سے ہے جو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کشمکش کی وجہ سے بہت سے سیاسی مبصرین کو شک ہے کہ انتخاب ہوسکیں گے یا نہیں۔ انتخابات سے فرار کے لیے پنجاب کی نگراں حکومت، وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کی مددگار بن گئی ہے۔ انتخابات سے قبل نگراں حکومت کے قیام کا فیصلہ اسی مقصد سے کیا گیا تھا کہ انتخابی عمل میں حکومتی طاقت کسی بھی فریق کو حاصل نہ ہو۔ اسی مقصد سے نگراں حکومت کے دوران میں افسروں کی تبدیلی اور تعیناتی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ انتخابی عمل کے دوران میں حکومت پر فائز عہدیداروں کا انتخابی مہم میں حصہ لینا اور کسی ترقیاتی منصوبے کا اعلان یا افتتاح بھی ممنوع قرار پایا ہے۔ لیکن چونکہ قول و فعل میں تضاد ہماری قومی پہچان ہے اور مقتدر اشرافیہ اس روش کی نمایاں علامت ہے۔ سیاسی کشمکش کے موجودہ مرحلے میں پنجاب کی نگراں حکومت نے اپنی غیر جانبداری کا نقاب اُتار کر پھینک دیا ہے اور اس کی علامت لاہور میں پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنان میں جھڑپ ہے جس کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک ہونے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد انتخابی مہم شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا اور اس مقصد کے لیے لاہور سے ریلی نکالنے کا اعلان کردیا۔ صوبائی حکومت نے عین اس دن دفعہ 144 کا نفاذ کرتے ہوئے جلسے، جلوسوں، ریلیوں پر پابندی عائد کردی۔ پیمرا نے الیکٹرونک میڈیا کی جلسے جلوسوں کی کوریج پر پابندی عائد کردی۔ اس کے ساتھ ہی پولیس نے پابندی کے باوجود تحریک انصاف کی جانب سے ریلی نکالنے کی کوشش تو ناکام بنادی لیکن اپنے سیاسی اور جمہوری دعوئوں کی تردید کردی۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول جاری کردیا ہے۔ جس کا لازمی حصہ سیاسی سرگرمیاں ہیں۔ کسی بھی سیاسی سرگرمی کو پولیس کی طاقت سے روکنا غیر جمہوری عمل ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کے اظہار اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ سیاسی جدوجہد اور انتخابی مہم آزادی کے ساتھ چلانا ہر فرد اور جماعت کا حق ہے۔ طاقت کا استعمال ملک و ملت کے لیے کبھی مفید ثابت نہیں ہوا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ جبرواستبداد سے بھری ہوئی ہے۔ حکومت یا سیاسی جماعتیں یہ موقف رکھتی ہیں کہ اس وقت انتخابات کا انعقاد مناسب نہیں ہے تو وہ اس موقف کو تسلیم کرانے کے لیے سیاسی، قانونی اور آئینی طریقہ کو اختیار کریں، اگر کوئی سیاسی جماعت یا گروہ غیر قانونی اور پُرتشدد راہ اختیار کرے تو اس کی تادیب ضروری ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت جب اقتدار میں ہوتی ہے تو اپنی بیان کردہ مصلحت بالجبر منواتی ہے۔ اس جرم میں پاکستان کی ہر وہ جماعت شریک ہے جو اقتدار میں رہ چکی ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے فیصلے سے اختلاف کرنے اور اپنی رائے عوام سے قبول کروانے کے لیے بھی معاشرے اور سماج میں آزادی ضروری ہے۔ ملک و ملت کو خطرات درپیش ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ جو سیاسی حکومت بھی اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے ریاستی اداروں اور پولیس کی طاقت استعمال کرتی ہے وہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتی ہے۔ قول و فعل کے تضاد پر مشتمل رویوں کا نتیجہ ہے کہ انتخابی اور جمہوری عمل بھی اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں سیاست کی بالادستی قائم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اسی قول و فعل کے تضادنے پاکستان کے ہر ادارے اور طبقے کی ساکھ مجروح کردی ہے اور ہمارا ملک ’’ناکام طرزِ حکمرانی‘‘ کا نشان بن گیا ہے۔