سیاسی تصادم میں شدت

492

ملک میں روز بروز سیاسی بحران گہرا ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت ملک پر 13 جماعتی اتحاد کی حکومت ہے۔ جس میں ماضی کی دو بڑی اور حریف جماعتیں شامل ہیں۔ اس کا ساتھ تقریباً تمام علاقائی جماعتیں بھی دے رہی ہیں۔ اس کے باوجود موجودہ حکومت کی غیر مقبولیت عوامی غیظ و غضب میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ گیلپ کے تازہ ترین سروے کے مطابق پی ڈی ایم کی منفی ریٹنگ سامنے آئی ہے۔ عوام کی بڑی تعداد ملک میں مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کے ذمے دار پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو سمجھتے ہیں۔ حکمران پی ڈی ایم کی غیر مقبولیت کے مقابلے میں معزول وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو نئے انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے، صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومت ختم کرادی اور ان کے وزرائے اعلیٰ نے صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کردیا۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن میں نئے انتخابات کرانا آئینی ذمے داری ہے لیکن کوئی اس کی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لے کر انتخابات کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کے پی کے میں انتخاب کی تاریخ دینے کی ذمے داری گورنر کو اور پنجاب میں صدر پاکستان کو دے دی۔ اس حکم کے ساتھ الیکشن کمیشن سے مشورہ کرنا لازم قرار دے دیا۔ پنجاب میں صدر نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد انتخاب کی تاریخ اور نظام الاوقات کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ گورنر کے پی کے اور الیکشن کمیشن اس مسئلے کو ٹال رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود وفاقی حکومت کے حلقے انتخابات سے کھل کر گریز کررہے ہیں۔ وفاقی وزارت داخلہ نے سیکورٹی کے لیے افرادی قوت اور وزارت خزانہ نے فنڈ دینے سے انکار کردیا ہے۔ سابق وزیراعظم پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاہور سے انتخابی مہم شروع کرنے کے لیے ریلی نکالنے کا اعلان کردیا تھا لیکن پنجاب کی نگراں حکومت نے دفعہ 144 نافذ کردی ہے جس کے مطابق ایک ہفتے کے لیے جلسے جلوسوں پر پابندی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ کے لیے ریلی کی کوریج ممنوع ہے۔ یہ صورت حال ظاہر کررہی ہے کہ حکومت ہر حال میں انتخابات سے خوف زدہ ہے۔ سیاسی تصادم کی وجہ سے ملک کی فضا میں ہیجان اور انتشار بڑھتا جارہا ہے۔ دوسری طرف سیاسی بحران کی اصل جڑ یعنی بربادی کی وجہ سے عام شہری کے لیے روزانہ کی بنیاد پر زندگی سخت ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کا سارا زور اس بات پر ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوجائیں۔ سیاسی فضا میں پاکستان کے دیوالیہ اور نادہند ہوجانے کا خطرہ سر پر لٹکا ہوا ہے۔ صرف ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ہر حکم کو مانا جارہا ہے۔ وزیر خزانہ اور وزارت خزانہ کی طرف سے بار بار یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ اس ہفتے معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے گا۔ بحران ایسا ہے کہ اس نے غریب مزدوروں اور کسانوں سے لے کر بڑے صنعت کاروں تک کو متاثر کیا ہے۔ اس لیے کہ زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے درآمدات متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں، اوپر جس سروے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک آدمی نے کہا ہے کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران میں ان کی یا ان کے کسی گھر والے کی ملازمت ختم ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام شہری کی جو حالت ہے اس کا اندازہ کسی رپورٹ، تحقیق اور اعداد و شمار سے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ڈیفالٹ سے بچ بھی گئے تو بعد میں کیا ہوگا، اس کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔ معاشی ایمرجنسی کی خبریں ہیں۔ حکومت انتخابات سے فرار ہونا چاہتی ہے، اس پس منظر میں خبر یہ آئی ہے کہ 10 بڑے صنعت کاروں نے آرمی چیف سے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات میں انہوں نے وزیر خزانہ کو بھی بٹھایا اور یقین دلایا ہے کہ ملک ترقی کرے گا، مشکل حالات ختم ہوجائیں گے۔ اس ملاقات کی باقاعدہ خبر جاری نہیں کی گئی۔ البتہ ذرائع ابلاغ کے بعض لوگوں کو راوی کا نام بتائے بغیر مطلع کیا گیا ہے۔ اس ملاقات اور گفتگو کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے یہ بات خاص طور پر کہلوائی گئی ہے کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے گی نہ سیاسی کردار ادا کرے گی۔ یعنی انہوں نے اپنے پیش رو کے موقف کو دہرایا ہے کہ فوج غیر جانبدار ہوچکی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین اپنے تنازعات خود حل کریں، لیکن بزنس کمیونٹی کے نمائندوں سے یہ ملاقات خود یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے۔ وزیر خزانہ کو ساتھ بٹھا کر گفتگو کرنے کے کیا معنی ہیں، جبکہ ہر سیاسی گروہ اپنی جنگ جیتنے کے لیے حکومتی اداروں کی طاقت استعمال کررہا ہے۔ یہ ملاقات اس پس منظر میں بھی سامنے آئی ہے کہ یہ بحث ہورہی ہے کہ ملک میں الیکشن ہوں گے یا نہیں۔ آئی ایم ایف نے جس طرح معاہدے کو لٹکایا ہے وہ یہ بتارہا ہے کہ اس خطے میں کشمکش بڑھ رہی ہے۔ ریاست اور اس کے اداروں کی ناکامی مایوسی اور اضطراب میں قوم کو ڈال دیا ہے۔