معاشرے کا متضاد کردار

411

اس کے سر میں شدید درد تھا‘ اسے رات کو نیند بھی کم آتی ہے‘ چلنے میں بھی تھکن ہوتی ہے‘ گھر کا کام نہیں کیا جاتا۔ اس نے بتایا کہ میں حاملہ ہوں‘ چوتھا مہینہ ہے۔ اس کی یہ بات سن کر نہ صرف میں بلکہ کمرے میں موجو دیگر خواتین مریض بھی حیران رہ گئیں۔ اس کا چہرہ ہی ایسا تھا کہ وہ بچی لگتی تھی۔ مزید حیرانی اس پر ہوئی جب اس نے بتایا کہ یہ اس کا تیسرا حمل ہے اور دوسری شادی ہوئی ہے۔ اس کی عمر ساڑھے اٹھارہ سال تھی۔

اس نے بتایا کہ وہ رحیم یار خان کے گائوں کہانہ کی رہنے والی ہے۔ اس کے والدین اس کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ تایا نے پرورش کی۔ اس نے بچپن ہی سے تائی کی ڈانٹ اور طعنے سن سن کر زندگی گزاری۔ 13 برس کی ہوئی تو تایا نے 50 سال کے عمر کے فرد سے اس کی شادی کر دی۔ اس کے بعد وہ چار سال شوہر کے ساتھ رہی۔ شوہر کا کہنا یہ تھا کہ میں نے تو تمہارے چچا کو رقم دے کر شادی کی ہے۔ اس کو 2 لاکھ کی رقم دی ہے۔

شوہر کے گھر کم از کم وہ طعنے سننے سے محفوظ رہی۔ کھانا کھانے کو مل جاتا تھا۔ شوہر کی یہ دوسری شادی تھی‘ اس کے بچوں کے پاس گرین کارڈ تھا۔ بیوی بھی وہاں چلی گئی تھی۔ وہ رحیم یار خان میں اکیلا رہتا تھا اور اپنے ویزے کا انتظار کر رہا تھا۔ جیسے ہی ویزہ آیا وہ حویلی بیچ چکا تھا‘ اس نے اسے تایا کے گھر چھوڑا اور کہا کہ اب میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور بیوی بچوں کے پاس امریکا جا رہا ہوں۔

اس نے بتایا کہ شوہر مجھے تایا کے گھر لایا اور شکریہ ادا کیا کہ تمہاری وجہ سے میرے یہ چار سال اچھے گزر گئے۔ بیس ہزار روپے اس نے مجھے دے دیا اور کہا اب تعلق ختم‘ میں باقی زندگی امریکا میں اپنے بچوں کے ساتھ گزاروں گا۔

اس کے جانے کے بعد تایا نے رقم بھی مجھ سے لے لی۔ زیور میں بندے اور لاکٹ تھے وہ تائی نے لے کر اپنی بیٹیوں کو دے دیے۔ میرے بچے دو سال اور چھ ماہ کی عمر کے تھے۔ تایا نہ کہا کہ ہم تمہاری دوسری شادی کرا دیتے ہیں۔ تایا کے ایک لڑکے کا دوست کراچی میں رہتا تھا۔ اس سے میرا رشتہ کرا دیا۔ بچوں کا تایا نے کہا کہ یہ ہم رکھ لیتے ہیں۔ تمہاری زندگی میں ان کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے لڑکے والوں سے کہا ہے کہ تم کنواری ہو۔ تمہاری عمر بھی کم ہے‘ 18 سال کی ہو۔

میں بہت تڑپی لیکن انہوں نے زبردستی میری شادی کر دی۔ تائی نے کہا کہ بچے ہمارے پاس رہیں گے۔ میں حیران تھی کہ تائی کا رویہ اتنا اچھا کیسے ہو گیا‘ بہرحال رخصت ہو کر کراچی آگئی۔ بچوں کی خیریت فون کرکے لے لیتی۔ لیکن چھپ کر فون کرنا پڑتا کیوں کہ میری سسرال میں اطلاع ہے کہ میری کوئی اولاد نہیں۔ میرے سسرال والوں کو بس اتنا معلوم ہے کہ نکاح ہوا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ طلاق ہو گئی‘ لڑکی بڑی عمر کے فرد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی‘ ا س لیے رخصتی نہ ہو سکی۔

اس جھوٹ کا بعد میں پتا چلا لیکن میں تایا کے اس جھوٹ کی تردید نہیں کرسکتی تھی۔ وہ بتانے لگی کہ میرا شوہر بھی بہت اچھا ہے۔ غریب ہے لیکن میرا بہت خیال کرتا ہے۔ میری ساس بھی بہت اچھی ہے۔ میں ان چھ ماہ میں 18 سال کے سخت حالات بھلا چکی ہوں۔ صرف بچے یاد آتے ہیں۔

یہ لڑکی بھینس کالونی کراچی کی مدینہ بستی میں لگائے گئے پیما ریلیف کیمپ میں آئی تھی۔ اس مریضہ میں خون کی کمی اور اینگزائٹی تشخیص کی گئی۔ گائنا کالوجسٹ سے معائنہ کروایا۔ الٹرا سائونڈ یہیں کیمپ میں کروایا۔ اس کی ساس کو ساری داستان پتا چل گئی۔ وہ اسپتال ساس کے ہمراہ آئی۔ ساس نے بتایا کہ مجھے تو اللہ کا خوف ہے۔ میں اسے اپنی بیٹی کی طرح رکھ رہی ہوں‘ اس کے چھوٹے بچے کو تو اس کے تایا نے کسی بغیر اولاد کے فرد کو بیچ دیا‘ لیکن بڑا لڑکا موجود تھا۔ وہ میں یہاں لے آئی ہوں۔

مریضہ کو خون کی کمی کے ازالے کے لیے ادویات دی گئیں۔ اینگزائٹی کے لیے علاج کیا گیا۔ دوائوں‘ سائیکو تھراپی اور ساس کے اچھے رویے سے اس کی حالت کافی بہتر ہو گئی۔

ساس نے بتایا کہ وہ درس میں جاتی ہے۔ یتیموں کے ساتھ اچھے سلوک کا وہ کئی مرتبہ سن چکی ہے۔ کہنے لگی ڈاکٹر صاحب میں پڑھی لکھی نہیں لیکن یہ میری سمجھ میں آگیا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں سے اچھا سلوک کرکے دکھایا ہے۔ بس میں بھی یہی کر رہی ہوں۔ میں اپنے بیٹے کے مقابلے میں بہو کی حمایت لیتی ہوں۔ اس کا بڑا بچہ میرے ساتھ رہتا ہے۔ لڑکی اور ساس کے ہاتھ میں جب بھی آتی ہیں تسبیح رہتی ہے۔ لڑکی کے مطابق وہ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتی رہتی ہے اور درود پڑھتی رہتی ہے۔

اس کیس کو دیکھیں تو معاشرے کے متضاد رویے دیکھنے کو ملتے ہیں:

٭ بھائی کی یتیم بیٹی کے ساتھ ناروا سلوک۔

٭ مال کی محبت میں اپنی جگر گوشہ بچی کی بوڑھے فرد سے شادی کرنا۔

٭ امریکا کی محبت میں گرفتار فرد کا امریکا میں رنے والے بچوں سے محبت کرنا اور پاکستان میں موجود چھوٹے بچوں اور بیوی سے تعلق ختم کر لینا۔ انتہا درجے کی خود غرضی کا آئینہ دار ہے۔

٭ اپنے چھوٹے یتیم نواسے کو مال کے عوض کسی کو گود دے دینا۔

٭ ساس کا دوسروں کے بچے کو اپنے گھر رکھ کر محبت سے پرورش کرنا۔

یہ شیطانی اور رحمانی رویے ہیں۔ معاشرے میں شیطانی رویوں‘ خود غرضی اور لالچ کے ساتھ اچھے رویے‘ محبت‘ پیار‘ اپنے پر دوسروں کو سبقت دینا۔ یہ رویہ بھی موجود ہے۔ انہی چراغوں سے روشنی پھیل رہی ہے۔