نئی صف بندی کی تیاریاں

513

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پرندوں کی گھونسلوں میں واپسی کا بگل بج گیا ہے اور پاکستانی سیاست کاہر مہرہ اپنا کردار ادا کر کے اپنے اپنے گھونسلے یا ٹھکانے میں واپس آنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن نے انتخابات کی تیاری کا اعلان کیا۔ اتحادی ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی نے اپنی ہی حکومت کے فیصلے کے خلاف ڈیجیٹل مردم شماری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم نے بھی تنہا پرواز کا عندیہ دینا شروع کیا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف کو مقروض قرار دے کر انہیں کراچی آنے اور یقین دہانی کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی جو دس ماہ سے فوری الیکشن کا مطالبہ کر رہی تھی مختلف قوتوں کی جانب سے انتخابات کی راہ ہموار ہونے کے بعد الیکشن میں جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تجویز کیا ہے کہ انتخابات مردم شماری کے بعد ہونے چاہیں، انہوں نے جنرل فیض حمید کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ثاقب نثار اور فیض حمید عمران کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔ انہیں لگام دی جائے اور ادارے نوٹس لیں۔ یعنی اب پی ڈی ایم فوج کے سیاست میں کردار کا مطالبہ کرنے لگی ہے۔ یہ سارے اشارے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ان سب کو نئے انتخابات کی طرف جانے کے لیے اشارے کر دیئے گئے ہیں۔ قومی سیاست پر نظر ڈالیں تو پاکستان پیپلزپارٹی اکثر و بیشتر کوئی اتحاد بنائے بغیر انتخابات میں اترنے کی کوشش کرتی ہے۔ کبھی کبھی انتخابی اتحاد اس طرح کا بناتی ہے کہ فیصلہ کن حیثیت اسی کی ہوتی ہے اور پھر الیکشن کے بعد حکومت سازی میں بھی اسے تمام مقتدر قوتوںسے مکمل تعاون ملتا ہے۔ جیسا کہ جنرل ایوب اور جنرل ضیا کے جانے کے بعد پہلے الیکشن یا جنرل پرویز کے جانے کے بعد الیکشن شاید اسی لیے پیپلزپارتی نے پی ڈی ایم میں شامل ہو کر اس سے فاصلہ کر لیا تھا تا کہ تنہا پرواز اس کے لیے آسان ہو جائے۔ ایم کیو ایم تو کرتی ہی تنہا پرواز ہے اور اس کا سبب اس کے مقتدر حلقوںسے مضبوط رابطے ہیں وہ ان کے ہر حکم کو آسانی سے بجا لاتی ہے۔ اس وقت ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی الگ الگ میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہے ہیں کیونکہ دونوں کی بزرگ قیادت نے اپنے اپنے نئی نسل کے لیڈر میدان میں اتار دیے ہیں اس اعتبار سے اگلا مقابلہ ان دونوں کو آگے رکھ کر ہونے کا امکان ہے۔ عمران خان رفتہ رفتہ ایسی غلطیاں کر رہے ہیں کہ پارٹی پر ان کی گرفت کمزور ہو سکتی ہے۔ پرویز الہٰی کو پارٹی صدر بنانے سے بھی ایک سیاسی تنظم ہونے ناتے ق لیگ فائدہ اٹھائے گی۔ اب میدان اس طرح تیار ہوتا نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی سب ہی اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں جو کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے اچھی روایت نہیں ہے۔ ایک روز قبل مفتاح اسمٰعیل نے کہا تھ اکہ سیاست میں فوج کا کردار کم ہونا چاہیے لیکن اگلے دن کے اخبارات ان تینوں قوتوں کی جانب سے اداروں کی مدح سرائی سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ بات ان کو خوب سمجھ میں آتی ہے کہ اداروں کے سیاست میں کردار سے ملک کو نقصان ہوتا ہے لیکن یہ سب اپنی حکومت اور اپنے اقتدار کی خاطر اداروں کو خود سیاست میں آنے کا موقع دیتے ہیں۔ بظاہر فوج کی جانب سے اب تک کسی کی حمایت یا مخالفت کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سب کو اب بھی یقین ہے کہ وہ سیاست سے بے تعلق نہیں ہے۔ شاید اس خاموشی کا مقصد یہ ہو کہ گزشتہ ایک سال کے دوران فوج جس طرح موضوع گفتگو اور ہدف تنقید بنی ہے اس سے قبل کبھی نہیں بنی ایسے میں کسی قوت کی حمایت یا مخالفت اس کے بارے میں مزید منفی پروپیگنڈے کی راہ ہموار کرے گی۔ سیاسی گروپوں کو بھی فوج اور اداروں کو پکارنے کے بجائے عوام کو پکارنا چاہیے اور عوام کو بھی اب تو شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کب تک تقریروں دعووں اور وعدوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔ پیپلزپارٹی نے جو موقف اپنایا ہے وہ سیدھا سیدھا سندھ کارڈ ہے۔ اس نے ڈیجیٹل مردم شماری کو قبول کرنے سے اس لیے انکار کر دیا ہے کہ سندھی قوم پرستوں نے اسے متنازعہ قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ مردم شماری ایم کیو ایم کے مطالبے پر ہو رہی ہے۔ حالانکہ مردم شماری کراتے وقت ایم کیو ایم بھی حکومت کا حصہ تھی۔ اصل میں یہ آواز تو جماعت اسلامی نے اٹھائی تھی کراچی کی گنتی سے معاملہ شروع ہوا تھا اور پورے صوبے میں خصوصاً سندھ کے شہروں میں گڑبڑ سامنے آئی تھی۔ لیکن ڈیجیٹل مردم شماری سے اختلاف کا مطلب عوام کو اپنا شمار خود کرنے کا حق دینے سے بھی انکار ہے۔ کیونکہ انہیںمعلوم ہے کہ جب عوام خود اپنی گنتی کریں گے تو کراچی جیسے شہر میں ڈیجیٹل مردم شماری کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے وہ اپنی گنتی پوری کریں گے۔ آصف زرداری نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کا دوٹوک اعلان کیا ہے۔ اس سے پیپلزپارٹی کے عزائم بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹانے کے لیے پی ڈی ایم ایک بندوبست تھا اور کچھ نہیں۔ یہ موومنٹ ہے نہ ڈیموکریٹک۔ جہاں تک امپورٹڈ اور سلیکٹڈ کا تعلق ہے تو کوئی امپورٹڈ ہے نہ سلیکٹڈ یہ سب اسٹیبلشڈ ہیں جس کی ضرورت ہوتی ہے اسے اسٹیبلش کر دیا جاتا ہے۔ اب نیا کھیل کھیلا جائے گا جو ضرورت پوری کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہو گا آگے نکل جائے گا۔ البتہ کہیں کہیں گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو کوئی عوامی نمائندہ بھی اسمبلی میں پہنچ جائے گا۔ کیونکہ عوام اپنے حق کے لیے باشعور اور تیار نہیں۔وہ شعور استعمال کریں تو تمام تر قوت کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ناکام ہو گی۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا