بڑے چھوٹے کی تقسیم‘ اقوام متحدہ کی دو رُخی

1168

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ امیر ممالک نے عالمی مالیاتی نظام اپنے فائدے کے لیے وضع کیا ہے۔ انہوں نے غریب ممالک کے خلاف امیر ممالک کے حربوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ غریب ممالک کو شرح سود کی اضافی قیمتوں کے ذریعے تنگ کررہے ہیں۔ 46 کم ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دولت مند ممالک کو دنیا کی معیشتوں کو فروغ دینے اور تعلیم و صحت کی سہولتیں بہتر بنانے کے لیے سالانہ 500 ارب ڈالر دینے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ انویسٹمنٹ کمپنیاں شرح سود بڑھارہی ہیں توانائی کمپنیاں ریکارڈ منافع کما رہی ہیں اور قرضوں میں ڈوبے کم وسائل والے ممالک کو معاشی ترقی کے چیلنجز درپیش ہیں۔ انہوں نے امیر ممالک کی ناکامی کا حوالہ بھی دیا کہ وہ غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے لیے بھاری مالی مدد دینے میں ناکام رہے ہیں۔ انتونیو گوتریس اس سے قبل بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق امیر ممالک کے بارے میں اظہار خیال کرچکے ہیں۔ لیکن عالمی مالیاتی نظام کے بارے میں انہوں نے پہلی مرتبہ کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ امیر ممالک اور بڑی بین الاقوامی سرمایہ کار کمپنیاں عالمی مالیاتی نظام پر براہِ راست اثر انداز ہیں اور اپنے منافع کے لیے غریبوں کا خون نچوڑ رہی ہیں۔ انتونیو گوتریس کا کہنا بجا ہے لیکن عالمی مالیاتی نظام اور امیر غریب کی تقسیم اب بھی موجود ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے کم ترقی یافتہ ممالک کی 46 رکنی تنظیم کا الگ اور ترقی یافتہ ممالک کے الگ اجلاس منعقد کرکے امیر غریب کی تقسیم کو مستند کردیا ہے۔ انتونیو گوتریس کی باتیں تو درست ہیں لیکن ان کا اور اقوام متحدہ کا عمل اس امیر غریب کی تقسیم کو استحکام دینے والا ہے۔ یہ اجلاس ہر دس سال بعد ہوتا ہے لیکن 2021ء میں کورونا کی وجہ سے دو برس سے یہ ملتوی ہورہا تھا اور اب منعقد ہوا، جبکہ افغانستان جس کو بڑے ممالک تسلیم نہیں کرتے اس لیے اجلاس میں افغانستان شریک نہیں ہوا اور اس کو تسلیم نہ کرنے والے بڑے ممالک بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ یہی دوہری پالیسی ہے جو بڑے ممالک نے چھوٹے ممالک کے لیے وضع کی ہے اور اقوام متحدہ اس کے مطابق اپنے اجلاس منعقد کررہی ہے۔ اسی طرح جی 20 اور جی ایٹ ممالک ہیں، یہ سب ترقی یافتہ ممالک ہیں اور جی 20 میں شریک ممالک عالمی جی ڈی پی کے 90 فیصد کو کنٹرول کرتے ہیں اور عالمی تجارت کے 80 فیصد کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی دو عملی کا اظہار یہ ہے کہ وہ جی 20 اور ایل جی پی 46 کے اجلاس الگ الگ کیوں کرتا ہے۔ اگر دنیا کو گلوبل ویلج یا ایک اکائی قرار دیا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ 20 ممالک دنیا کی 80 فیصد تجارت اور 90 فی صد جی ڈی پی پر قابض رہیں اور باقی ممالک ان کے ٹکڑوں اور خیرات کے منتظر رہیں۔ اقوام متحدہ میں بڑی اچھی اچھی تقریریں ہوتی ہیں۔ مختلف ممالک کے سربراہ اور نمائندے زبردست تقریریں کرتے ہیں، اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق، عمران خان وغیرہ کی معرکہ آرا تقاریر کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اب انتونیو گوتریس جو خود سیکرٹری جنرل ہیں ان کی تقریر کی اہمیت ہے لیکن تقریر اور عمل میں مطابقت دیکھنے کے لیے دنیا کی آنکھیں ترس چکی ہیں۔ اگر دنیا گلوبل ویلج ہے اور اسے صرف قرار نہیں دیا گیا تو سارے گھر کا ایک اجلاس ہونا چاہیے اور باوسیلہ ممالک کے سامنے بے و سیلہ ممالک کے مسائل رکھے جائیں اور ایک ہی چھت تلے ایک ہی وقت میں مسائل حل کیے جائیں۔ یہ امیر غریب کی تقسیم اتنی زیادہ ہے اور امیروں میں غریبوں سے اس قدر نفرت ہے کہ وہ ان کو برابری کا درجہ دینے کو تیار نہیں، جب ایک چھت تلے ایک ہی اجلاس ہوگا اور ہر رکن برابر ہوگا تو یہ بڑے ممالک کو کسی طور منظور نہیں۔ اس تقسیم اور اس رویے کی وجہ سے چھوٹے اور پسے ہوئے طبقات الگ ریاستوں کی جانب جاتے ہیں یعنی الگ ریاست قائم کرتے ہیں اور ان ریاستوں کو یہ ممالک آزاد نہیں رہنے دیتے۔ اس مقصد کے لیے یہ دوہرا مالیاتی نظام وضع کیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان بڑے ممالک کو بھی کوئی ایک ٹولہ کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن جب ان بڑے ممالک کو اپنا فائدہ نظر آرہا ہو تو یہ اس نظام کو درست کرنے کی جانب توجہ نہیں دیتے۔ حالانکہ جو ممالک ترقی یافتہ کہلائے جاتے ہیں ان میں مساوات، صنفی مساوات، کالے گورے کی تفریق ختم کرنے اور محنت کی عظمت جیسے اصولوں کو بڑی عظمت دی جاتی ہے لیکن جب ان ممالک کے سامنے کم ترقی یافتہ ممالک ہوں تو ان کی اَنا جاگ جاتی ہے یہ غریبوں کو اپنے مساوی مقام تک دینا نہیں چاہتے، ان کے اس رویے کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بھی ہر ایک کو حاصل نہیں کرنے دیتے اور ایٹمی قوت بھی۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ وسائل بھی ان کے کنٹرول میں رہیں اور ٹیکنالوجی بھی، پھر یہ ٹکڑے اچھالتے رہیں۔ یہ دو رُخی اور ناانصافی ختم نہیں ہوگی تو عالمی کشیدگی اور بڑھے گی۔