ظالمانہ اقدامات کو آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالنا غلط ہے

300

نیب کرپشن کا سہولت کار اور دل و دماغ ہے،ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا خصوصی انٹرویو

ممتاز بینکار اور ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کراچی کے چیئرمین اور انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز پاکستان کے فیلو ہیں۔ آپ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی سنڈیکیٹ کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل بینک آف خیبر کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے بورڈ آف گورنرز اور نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر بھی رہے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے پاکستان، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بینکوں میں اہم انتظامی عہدوں پر 30 سال تک خدمات انجام دی ہیں اور گزشتہ 23 برسوں سے ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں معیشت، اقتصادیات اور بینکنگ بشمول اسلامک بینکنگ پر مقالے پیش کرتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ان موضوعات پر اردو اور انگریزی میں پانچ سو سے زیادہ مضامین اور کالم لکھے ہیں۔ ان ہی موضوعات پر اُن کے تحقیقی مقالے ملکی و غیر ملکی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد کے معاشی و سلامتی امور پر تجزیے ملکی و عالمی میڈیا پر بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے مندرجہ ذیل کتابیں لکھی ہیں:
Islamic Banking
Paistan: Economic Growth & Stabilization, Myth or Reality?
پاکستان اور امریکہ۔ دہشت گردی، سیاست و معیشت
ہم نے موجودہ سیاسی و معاشی حالات کے پس منظر میں ان سے چند بنیادی سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جو یقیناً مستقبل کے پاکستان کے منظر کی تصویر واضح کریں گے۔

فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹر صاحب! قوم مضطرب اور پریشان ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ آپ پاکستان کے سیاسی حالات کے پس منظر میں معیشت کو کس طرح سے دیکھ ہے ہیں؟

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: یہ ایک قومی المیہ ہے کہ گزشتہ 12 مہینوں میں ایک مربوط، ناقابلِ دفاع، پراسرار اور قومی مفادات و سلامتی سے متصادم پالیسیاں اپناکر پاکستانی معیشت کو جس طرح تباہ و برباد کیا گیا ہے اور 23 کروڑ پاکستانیوں کی زندگی جس طرح اجیرن بنائی گئی ہے اس کی پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 28 فروری 2022ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے آئی ایم ایف سے خود اپنا کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا، چنانچہ آئی ایم ایف کا پروگرام مشکلات کا شکار ہوگیا اور آئی ایم ایف نے پاکستان کو دی جانے والی 900 ملین ڈالر کی قسط روک لی۔ اگر یہ معاہدہ نہ توڑا جاتا تو معیشت مشکلات میں تو رہتی مگر سنگین معاشی بحران پیدا نہ ہوتا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ستمبر 2008ء میں فرینڈز آف پاکستان کے ساتھ قومی سلامتی سے متصادم سودے کے بعد آنے والے وقت میں جو دانستہ غلط بیانیاں کی گئیں، اُس وقت پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جو وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ تھے وہی دونوں شخصیات تحریک انصاف کے دور میں 28 فروری 2022ء کو ان ہی عہدوں پر تعینات تھیں۔ ستمبر 2008ء میں فرینڈز آف پاکستان گروپ کے جال میں پھنسنے سے امریکہ کے نیو گریٹ گیم تک کا سفر آج تک پاکستان میں کامیابی سے جاری ہے۔

عمران حکومت کی برطرفی کے بعد وزیراعظم شہبازشریف کے دور میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور اُن کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے طے شدہ معاملات سے انحراف کیا، جب کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو تیزی سے گرانے،اور غلط کاریوں میں

ملوث اداروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے سٹے بازی ہونے دی گئی، ہنڈی/حوالہ کے کاروبار اور اسمگلنگ کو فروغ حاصل ہوتا رہا اور انٹر بینک مارکیٹ اور نام نہاد متوازی مارکیٹ کے فرق کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چند روپے سے بڑھا کر 40 روپے تک پہنچا دیا گیا۔ اس عمل میں اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر جن کو عمران خان نے پراسرار طریقے سے تعینات کیا تھا، اور موجودہ گورنر جمیل احمد کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: حکومت آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل کررہی ہے۔ منی بجٹ کے بعد بجلی، گیس، پیٹرول سمیت مہنگائی کا سیلاب ہے۔ کیا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا؟

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: پاکستان میں آئی ایم ایف کی شرائط کے نام پر ضمنی بجٹ میں 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے، اور کچھ نئے اضافوں کے خدشات کو آئی ایم ایف کی شرائط کا نام دینا غلط بیانی اور گمراہ کرنا ہے۔ ان ظالمانہ اقدامات کو آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالنا غلط ہے۔ حکومت، حزبِ مخالف کے سیاست دان اور خود میڈیا ان اقدامات کو آئی ایم ایف کی شرائط قرار دے رہے ہیں۔ ہم برس ہا برس سے کہتے رہے ہیں کہ امریکہ کے اشارے پر آئی ایم ایف نہیں چاہتا کہ پاکستانی معیشت مستحکم ہو، اور وہ حکومت اور قوم میں اعتماد کا بحران پیدا کرنا اور برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف حکومتیں بشمول موجودہ حکومت ڈالر اور اقتدار کے لیے امریکی آشیرباد حاصل کرنے اور طاقت ور طبقوں کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے جو کڑی اور تباہ کن پالیسیاں اور تجاویز پیش کرتی ہیں آئی ایم ایف ان کو منظور کرلیتا ہے، لیکن وہ بجٹ خسارے اور جاری حسابات کے خسارے کو کنٹرول کرنے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کو کرنے دینے اور اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ کو افراطِ زر کو ذہن میں رکھتے ہوئے مقرر کرنے کا ہدف دیتا ہے۔ ان اہداف کو ایسی دانش مندانہ پالیسیاں وضع کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے جن کا بوجھ عوام اور معیشت پر نہ پڑے، لیکن ان پالیسیوں سے طاقت ور طبقوں، سیاست دانوں، ارکانِ پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی کے اراکین، بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ وغیرہ کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے، چنانچہ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے، بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کرنے وغیرہ جیسے اقدامات پر اتفاق ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہ سب آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالنا غلط ہے۔ یہ دراصل ملکی و بیرونی اشرافیہ کا گٹھ جوڑ ہے۔ یہ بات ہم برس ہا برس سے کہتے رہے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: اس گٹھ جوڑ کی تفصیل کیا ہے؟

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: حالیہ مثال لے لیں،آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے 17 فروری 2023ء کو جرمنی میں کہا کہ ’’میرا دل پاکستانی عوام کے ساتھ ہے“، ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنی ٹیکسوں کی آمدنی بڑھائے، جو لوگ دولت کما رہے ہیں اور جو انکم ٹیکس دے سکتے ہیں اُن سے ٹیکس وصول کیا جائے، غریب عوام کو زرِ اعانت دی جائے، اور یہ کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان کے غریب عوام کا تحفظ کیا جائے۔“ یہ بات واضح ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے کہتی ہے کہ ہم مال دار لوگوں سے ٹیکس نہیں لے سکتے، چنانچہ اتفاقِ رائے اس بات پر ہوجاتا ہے کہ جنرل سیلزٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے یعینی 17 فیصد سے 18 فیصد کردی جائے۔ واضح رہے کہ آمدنی کے بجائے اشیا پر ٹیکس لگانا ظالمانہ پالیسی ہے، کیوں کہ خوب دولت کمانے والے اور ٹیکس چوری کرنے والے مزے کرتے رہتے ہیں یا اُن پر ٹیکس مؤثر طور پر عائد ہی نہیں کیا جاتا، اور جنرل سیلزٹیکس یعنی اشیا پر ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی جاتی ہے۔ غریب و متوسط طبقے کے علاوہ وہ بھی اشیا پر جنرل سیلزٹیکس دیتے ہیں جو خود فٹ پاتھ پر رہتے ہیں یا خیرات پر گزارا کرتے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: اسٹیٹ بینک کے ڈسکاؤنٹ ریٹ میں متوقع اضافے کو آپ کس طرح سے دیکھ رہے ہیں؟

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: حکومت اور اسٹیٹ بینک کا اشرافیہ کو نوازتے چلے جانے کی وجہ سے مئی 2022ء کے بعد سے پاکستان میں مہنگائی انتہائی تیز رفتاری سے بڑھی ہے اور اسٹیٹ بینک کے ڈسکاؤنٹ ریٹ (شرح سود) اور افراطِ زر کا منفی فرق بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے، چنانچہ یہ ناگزیر ہوگیا تھا کہ اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کرے۔ چنانچہ اس متوقع اضافے کو آئی ایم ایف کی شرط کہنا درست نہیں ہے۔ مئی 2022ء میں پاکستان میں افراطِ زر 13.8 فیصد تھا جب کہ شرح سود 12.25 فیصد تھی، یعنی منفی 1.55 فیصد۔ جنوری 2023ء میں افراطِ زر 27.5 فیصد اور شرح سود 17 فیصد، یعنی 10.5 فیصد منفی۔ مارچ 2023ء میں اور اس کے بعد افراطِ زر میں مزید اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے، چنانچہ اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں 16 مارچ 2023ء کو اضافہ ہر حالت میں کرنا ہی تھا، البتہ آئی ایم ایف نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان اور اسٹیٹ بینک کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے۔ جب کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط جلدازجلد حاصل کرنا ہے، اس لیے شرح سود میں اضافے کا فیصلہ 16 مارچ 2023ء کے بجائے 2 مارچ کو کیا جارہا ہے۔ یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک معیشت اور توانائی کے شعبوں میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہیں، چنانچہ شرح سود میں اضافہ غیر موثر رہتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں شرح سود 6.25 فیصد، چین میں 3.65 فیصد اور تھائی لینڈ میں 1.25 فیصد ہے۔ چنانچہ ہمارے برآمد کنندگان مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہتے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق111(4) کی مدد سے ترسیلات کو بڑھایا جاتا ہے جو کہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: ہمارے سیاسی منظرنامے میں نیب کے کردار پر بہت بات ہورہی ہے۔ اس ادارے اور اس کی کارکردگی کو آپ کس طرح سے دیکھ رہے ہیں؟

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: پاکستان میں انسدادِ بدعنوانی کا سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ گزشتہ تقریباً 22 برسوں سے نیب کی کارکردگی متنازع، غیر شفاف، امتیازی اور مایوس کن رہی ہے۔ نیب نے ملک میں بدعنوانی کے فروغ میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ نیب کرپٹ ادارہ ہونے کے ساتھ ایک نااہل ادارہ بھی ہے۔ نیب کے پاس ’’وہائٹ کالر کرائم“ کی تحقیقات کرنے کی صلاحیت بھی موجود نہیں ہے۔ مختلف حکومتیں خواہ فوجی ہوں یا سول… اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نیب کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ ستمبر 2001ء کے بعد سے اب تک حاضر سروس و ریٹائرڈ جرنیل، ریٹائرڈ ایڈمرل، سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اور بیورو کریسی کے ریٹائرڈ اراکین نیب کے چیئرمین رہے ہیں اور ان سب نے ہی لوٹی ہوئی دولت کی وصولی کے مضحکہ خیز اور غلط دعوے کیے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں سپریم کورٹ کے متعدد ججوں نے مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران نیب کے بارے میں جو ریمارکس دیے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

-1 نیب میں اندھیر نگری چوپٹ راج کی سی کیفیت ہے۔ اربوں روپے کے وسائل ہیں اور کام ایک فیصد بھی نہیں۔

-2 نیب نے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہے، اسے بدعنوانی سے کون پاک کرے گا؟

-3 نیب کی خود مختاری پر سمجھوتا کرلیا گیا ہے۔

-4 نیب میگا اسکینڈلز کو نظرانداز کر رہا ہے۔

-5 نیب کرپشن کا سہولت کار اور دل و دماغ ہے۔

-6 نیب نے ملک کا تماشا بنایا، ملک کو نیب سے رسوائی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔

-7 نیب نے ادارے تباہ کر دیے۔

-8 نیب سے خدا ہی پوچھے۔ کوئی ہے جو اس کا آڈٹ کرے!

پاکستان میں صرف ہم نے ہی تواتر سے کہا ہے کہ نیب لوٹی ہوئی دولت کی وصولی اور قومی خزانے میں جمع کرائی جانے والی رقوم کے دانستہ، مضحکہ خیز اور جھوٹے دعوے کرتا رہا ہے۔ اور یہ بات تو عام آدمی بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ نجی بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کی رقم براہِ راست بینکوں میں جمع ہوتی ہے، قومی خزانے میں نہیں۔ اب سے 18 برس قبل 2005ء میں متحدہ مجلس عمل نے ہماری کتاب ’’پاکستان۔ معیشت کی نمو اور استحکام۔ خواب یا حقیقت؟“ شائع کی تھی۔ اس کتاب میں ہم نے لکھا تھا کہ نیب نے بینکوں کے قرضوں کے ضمن میں تقریباً 134 ارب روپے کے دعوے کیے ہیں مگر دراصل یہ رقم تقریباً 18 ارب روپے ہے۔ ہم نے 14 جنوری 2016ء کو کہا کہ ستمبر 2001ء سے اب تک نیب کے سات چیئرمین تعینات ہوئے لیکن ان سب نے لوٹی ہوئی دولت کی وصولی کے غلط اعداد و شمار پیش کیے، اور یہ کہ نیب کی 2014ء کی سالانہ رپورٹ میں بھی غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔ ہم نے 25 فروری 2016ء کو کہا تھا کہ نیب کے کلچر کو درست کرنے اور اس ادارے کی تنظیمِ نو کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ہم نے متعدد ٹیلی ویژن چینلز پر بھی نیب کی غلط کاریوں کو اجاگر کیا تھا۔ نیب بہرحال بدستور لوٹی ہوئی دولت کی وصولی کے غلط دعوے کرتا رہا۔ نیب کے چیئرمین جاوید اقبال نے 11 جولائی 2021ء کو جاری کردہ پریس ریلیز میں دعویٰ کیا کہ نیب نے بدعنوان عناصر سے 814 ارب روپے وصول کرکے اپنے قیام سے اب تک یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرا دی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں جولائی 2022ء میں نیب کے نئے چیئرمین آفتاب سلطان کے لیے موقع تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے ریمارکس کی روشنی میں نیب کے سینئر اہلکاروں کا سخت محاسبہ کرتے، قوم کے سامنے لوٹی ہوئی رقوم کی نیب کے ذریعے وصولی کے درست اعداد و شمار پیش کرتے تاکہ نیب کو غلط کاریوں میں ملوث اہلکاروں سے پاک کردیا جاتا۔ ان کے دور میں بھی اکتوبر 2022ء تک نیب کی جانب سے 886 ارب روپے کی وصولی کے غلط دعوے کردیے گئے جس میں بینکوں کے قرضوں کی ری شیڈولنگ اور ری اسٹرکچر کے حجم کو بھی وصولی دکھایا گیا حالانکہ یہ وصولی نہیں ہوتی۔ اگر وہ سپریم کورٹ کے ججوں کے ریمارکس کی روشنی میں نیب کو بدعنوان اہلکاروں سے پاک کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرتے تو یہ بڑی قومی خدمت ہوتی، مگر آفتاب سلطان نے یہ موقع ضائع کردیا۔

یہ امر افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں حکمران جماعتیں معیشت کے شعبے میں تاریخی کامیابیوں کے غیر حقیقت پسندانہ دعوے کرتی ہیں، مگر حزبِ مخالف کی جماعتیں معیشت کے شعبے کی کارکردگی کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بجائے صرف جذباتی نعرے لگاتی ہیں کیوں کہ وہ بھی معیشت کے شعبے میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاملات طے ہوتے ہیں ان پر زبردست تنقید تو ضرور کرتی ہیں مگر اس کی متبادل تجاویز پر بات کرنے سے اجتناب برتتی ہیں، کیوں کہ ان تجاویز سے طاقت ور ملکی و بیرونی اشرافیہ کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ اس کی دو مثالیں:

-1 تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگر اقتدار میں آئے تو وہ بھی آئی ایم ایف کے سامنے دستِ سوال دراز کریں گے۔ ہم یہ بات کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کے حکمران، امریکہ اور خود آئی ایم ایف نہیں چاہتے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکلے۔

-2 وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے 15 فروری 2023ء کو پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مالی سال 2017ء میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن گیا تھا لیکن اب پاکستان 47 ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف زبردست چارج شیٹ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں پاکستان 41 ویں معیشت تھی، 24 ویں معیشت نہیں، لیکن تحریک انصاف، میڈیا اور ماہرین خاموش ہیں کیوں کہ معیشت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور محور سیاسی بیانات اور عدالتی کارروائیاں ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 15 فروری 2023ء کو پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ گزشتہ چار برسوں میں معیشت کے زوال کے اسباب کا تعین کرنے کے لیے ایک قومی کمیشن بنایا جائے۔ ہماری تجویز یہ ہوگی کہ یہ قومی کمیشن ستمبر 2008ء سے اب تک معیشت کی تباہی کا باریک بینی سے جائزہ لے اور ذمہ داروں کا تعین کرے۔ یہ کام مشکل نہیں، کیوں کہ بیشتر تباہ کاریوں کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ اگر یہ کام کرلیا جائے تو چشم کشا حقائق سامنے آئیں گے اور احتساب کا عمل بھی تیزی سے آگے بڑھے گا۔

ہم یہ بھی تجویز کریں گے کہ نیب کے ادارے کو تحلیل کردیا جائے اور قومی مشاورت سے کرپشن پر ممکنہ حد تک قابو پانے کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری سے نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔

اگر موجودہ حکومت کے دور میں مسلم لیگ(ن) کے انتخابی منشور پر عمل کیا جاتا، طے شدہ معاملات سے انحراف کرکے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں متعدد بار غیر ضروری تاخیر نہ کی جاتی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول نہ کیا جاتا تو بحران اتنا سنگین نہ ہوتا جتنا آج ہے۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاسی عدم استحکام اور ڈیفالٹ کے نعرے کی تکرار نے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، حالانکہ استعماری طاقتیں پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش اُس وقت کرائیں گی جب افغانستان کے معاملات میں پاکستان کی مدد کی ضرورت کم ہوجائے گی۔ لیکن یہ ڈیفالٹ بھی اُس وقت کی پاکستانی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکے گا۔

فرائیڈے اسپیشل: اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ معیشت کی بحالی کا واحد نسخہ تجویز کریں تو اس ضمن میں آپ کیا کہیں گے؟

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: آئی ایم ایف، دوست ممالک، عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور جنیوا کانفرنس کے تحت کچھ قرضے ملنے سے صرف سنگین بحران ٹلے گا مگر معیشت کی مشکلات برقرار رہیں گی۔ معیشت کی بحالی کے لیے کچھ اسٹرکچرل اصلاحات ضروری ہیں، مگر کوئی بھی سیاسی پارٹی طاقت ور طبقوں کے مفادات سے متصادم ان اصلاحات کو کبھی بھی نافذ نہیں کرے گی۔ میثاقِ معیشت کا نعرہ بھی بے معنی ہے۔

معیشت میں پائیدار بہتری لانے، عام آدمی کی حالت بہتر بنانے، اور قومی سلامتی و مفادات کے تحفظ کے لیے واحد نسخہ یہ ہے:

-1 اگلے چند روز میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ اس اجلاس میں اُن تمام سیاسی پارٹیوں کو شریک ہونا ہوگا جن کی پارلیمنٹ میں ایک سے زائد نشستیں ہیں۔ اس اجلاس میں تینوں پارٹیوں کے متفقہ انتخابی منشور کی روشنی میں ایک حلف نامے پر تمام شرکا سے دستخط کرائے جائیں۔ اس حلف نامے میں یہ نکات شامل ہوں:

٭ وفاق اور صوبے 10 لاکھ روپے سالانہ سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس مؤثر طور سے اور منصفانہ طریقے سے نافذ اور وصول کریں گے۔

٭ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا۔ پراپرٹی کی مالیت ہر سال مارکیٹ کے نرخوں کے برابر ہوگی۔

٭ جنرل سیلزٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح (علاوہ لگژری اشیا کے) 7.5 فیصد ہوگی اور پیٹرولیم لیوی صفر ہوگی۔

٭ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کو منسوخ کردیا جائے گا۔

٭ تعلیم اور صحت کی مد میں جی ڈی پی کا کم از کم 7.5 فیصد مختص کیا جائے گا۔

٭ توانائی کے شعبے میں ایسی اصلاحات کی جائیں کہ بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافہ کئے بغیر گردشی قرضہ پیدا نہ ہو۔

٭ مائیکرو فنانس اسکیم کے تحت دیے جانے والے قرضوں کی فراہمی کے لیے ایکوٹی کی مد میں درکار رقم کم از کم 50 ارب روپے سالانہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں مختص کی جانے والی رقم سے فراہم کی جائے۔ اس طرح لاکھوں چھوٹے کسانوں، گھریلو خواتین، پلمبر، الیکٹریشن، کارپینٹر وغیرہ مجموعی طور پر 250 ارب روپے سالانہ کے قرضے تجارتی بینکوں سے حاصل کرسکیں گے۔ اسٹیٹ بینک کو اس ضمن میں سالانہ اہداف دینا ہوں گے۔ اگر کوئی شخص اپنا قرضہ بروقت ادا کر دیتا ہے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی ہوئی رقم معاف کر دی جائے گی۔ اسلامی بینک بھی زکوٰۃ کی رقم سے اس قسم کی فنانسنگ کر سکتے ہیں۔ ہم یہ تجویز گزشتہ 15 برسوں سے وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے ہیں۔

-2 حلف نامے پر دستخطوں کے بعد اس ضمن میں فوری طور پر قانون سازی کی جائے جس میں واضح طور پر کہا جائے کہ اگلے انتخابات کے بعد آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس قانون پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں گی، وگرنہ ان کا حقِ حکمرانی ختم ہوجائے گا۔

-3 اگلے عام انتخابات میں کسی بھی پارٹی کے ٹکٹ پر لڑنے والا ہر امیدار بھی اسی قسم کا حلف نامہ دے۔

-4 الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑنے والے فارم میں بھی یہ حلف نامہ شامل کیا جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے صرف طاقت کا استعمال غیر مؤثر اور تباہ کن ہے۔ ہم نے 2011ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’دہشت گردی،سیاست اور معیشت“میں اس مسئلے پر تفصیلی گزارشات پیش کی ہیں۔ معیشت کی بحالی کے نام پر ماضی میں اٹھائے گئے اور اب اٹھائے جانے والے متعدد اقدامات نہ صرف آئینِ پاکستان سے متصادم ہیں بلکہ اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں بھیآتے ہیں۔ چنانچہ اگر حکومت عوام کے ساتھ اپنی پالیسیوں کے ذریعے اقتصادی دہشت گردی کرتی ہے تو دہشت گردی پر قابو پایا ہی نہیں جاسکتا۔

اگر مندرجہ بالا گزارشات اور تجاویز پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو نتائج کا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے، کیوں کہ اجتماعی خودکشی کا راستہ کھلا ہے۔