غیر ضروری ادارے اور غیر ضروری اخراجات

687

ہمارے ملک میں بے شمار ایسے ادارے موجود ہیں جن کی ملک کو کوئی ضرورت نہیں۔ سندھ میں بھی ایسے بے شمار ادارے موجود ہیں جن کے بڑے بڑے دفتر کلفٹن، گلشن اقبال، پی ای سی ایچ ایس جیسے علاقوں میں موجود ہیں۔ جن کا لاکھوں روپے کرایہ حکومت سندھ ادا کرتی ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جا کر سرچ کریں تو ایسے ایسے ناموں کے محکمے نظر آئیں گے جن کا کوئی خاص کام نہیں بس افسران اور ملازمین بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں۔ سندھ میں سندھی بھائیوں کو نوازنے کے لیے نئے نئے محکمے بنائے جاتے ہیں۔ آپ سندھ کے کسی محکمے کو اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو سندھی کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا، ان محکموں کی عیاشی پر کسی وقت الگ سے ایک کالم تحریر کروں گا، خاص طور پر محکمہ (STAVTA) کے بارے میں۔ ابھی اُس کے سربراہ ڈاکٹر مصطفی سہاگ ایک قابل اور فرض شناس افسر ہیں مگر اُن کی ناک کے نیچے کیا کچھ ہورہا ہے اُس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں، ڈاکٹر مصطفی سہاگ کے دفتر کے دروازے پر سائل کے لیے کھلیں ہیں وہ سب سے ملتے ہیں ہمارے ملک میں ایک ادارہ ہے جس کا نام پہلے ایکسپورٹ پروموشن بیورو (EPB) تھا بعد میں اس ادارے کا نام TDA رکھ دیا۔ حال ہی میں ایک سفارشی افسر کو وہاں پوسٹ کیا۔ انہوں نے آتے ہی اپنے کمرے کی ہر چیز تبدیل کروائی 24 لاکھ روپے صرف اُن کے کمرے کے سامان پر خرچ ہوئے۔ پردے، AC سب تبدیل ایسے کرواتے ہیں جیسے یہ مال اُن کے باپ کا ہے ہر سرکاری ادارے میں فاضل اسٹاف موجود ہے جو صرف آتے ہیں، حاضری لگائی پھر دوسری نوکری پر چلے جاتے ہیں جو سیاسی بنیادوں پر نوکری پر آئے وہ تو برسوں دفتر کی شکل نہیں دیکھتے، تنخواہ پوری لیتے ہیں، میں نے ایسے سیاسی کارکن بھی دیکھیے ہیں جن کو عدالت نے سزا دی، انہوں نے جیلیں کاٹی اور واپس آکر دوبارہ نوکری پر لگ گئے جب کہ اگر کسی بھی سرکاری ملازم یا افسر کو عدالت سزا دے وہ دوبارہ نوکری پر بحال نہیں ہوسکتا مگر ہمارے ملک میں قانون نام کی چیز ہے ہی کہاں اگر قانون سخت ہوتا تو آج میرے ملک کا یہ حال نہیں ہوتا، ہر سرکاری دفتر کو اخراجات کے لیے باقاعدہ بجٹ ملتا ہے مگر افسوس کہ وہ بجٹ پورا کا پورا سرکاری افسران اور من پسند کلرک مل کر کھا جاتے ہیں۔ تمام سامان کی جعلی رسید لگائی جاتی ہیں۔ جعلی نمبر جعلی دستخط ہوتے ہیں اگر آپ اُس رسید کے پتے پر چلے جائیں تو وہاں اُس دکان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوگا۔ بلدیہ میں تو نظام ہی الگ ہے ہر بڑے افسر کے سالے، بھائی یا کسی رشتے دار کے نام پر جعلی کمپنی بنائی جاتی ہے پھر بڑے بڑے ٹھیکے اُن کو دے دیے جاتے ہیں۔ پی ڈبلیو ڈی بھی ایک بہت اہم سرکاری محکمہ ہے اس میں کبھی جا کر دیکھیں دفتر کے باہر سرکاری گاڑیوں کی باقیات ہی نظر آئے گی، سارا سامان چوری کرلیا جاتا ہے، اسٹاف میں صرف وہی لوگ کام کرتے ہیں جو ٹھیکے داروں کے بل بھی بنا کر دیتے ہیں اور پاس بھی کرواتے ہیں، دیگر اسٹاف کو کوئی افسر پوچھتا ہی نہیں ہے اگر کسی کلرک نے اس کرپشن پر آواز اٹھائی تو افسر پہلے اُس کو بولتا ہے ڈراتا ہے میں یہ کردوں گا تم مجھے جانتے نہیں میں کیا چیز ہوں مجھ پر پیپلزپارٹی کا ہاتھ ہے۔ کلرک کا تعلق متحدہ سے تھا، اُس نے اُلٹی دھمکی افسر کو لگائی کہ تم سمجھتے کیا ہو تمہارا کیس ایف آئی اے کو دے دوں گا، افسر کیوں کہ چور ہے اس لیے وہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے پھر اُس کلرک کو بھی حصہ دار بنالیا جاتا ہے۔ اس طرح سے یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے۔ ابن آدم تو متحدہ کے ایک ایسے ملازم کو جانتا ہے جس نے 25 سال سرکاری سروس کی، اس 25 سال میں وہ صرف پہلی تاریخ کو آتا تھا تنخواہ پوری لیتا اور پورے مہینے کی حاضری لگا کر چلا جاتا۔ یہ عمل خالی متحدہ کے کارکنوں کا نہیں بلکہ اس میں پیپلز پارٹی کے جیالے اور مسلم لیگ (ن)، (ف)، (ق) کے متوالے بھی شامل ہیں۔ واحد کارکن میں نے جماعت اسلامی کے دیکھے ہیں جو ایمانداری سے اپنی نوکری کرتے ہیں۔ این ایل ایف کے مرکزی جنرل سیکرٹری شاہد ایوب پی ٹی سی ایل میں نوکری کرتے تھے وہ شخص کبھی چھٹی نہیں کرتا تھا، اپنا کام نہایت ایمانداری سے کرتا تھا اس پر بھی نوکری کے دوران کرپشن کے چارج لگانے کی کوشش کی مگر ثابت نہیں کرسکے کیوں کہ وہ ایک سچا جماعت اسلامی کا کارکن تھا۔ اب آپ اے جی پی آر اور اے جی سندھ چلے جائیں کلرک بغیر رشوت کے کام کرنے کو تیار نہیں ہوتا، پنشن کی مد میں رشوت لیتے ہوئے ان کو بالکل بھی شرم محسوس نہیں ہوتی خاص طور پر اندرون سندھ کے کلرک تو پہلے رشوت طے کرتے ہیں پھر کام کو ہاتھ لگاتے ہیں اگر کسی کی پروموشن ہوجائے اور وہ جب اپنی تنخواہ کے difference کا بل بنوانے جاتا ہے تو بغیر رشوت اس کا کام نہیں ہوتا جب کہ ماضی میں بڑے بڑے ایماندار افسران اے جی سندھ کے عہدے پر کام کرکے گئے ہیں۔ نسرین مہدی صاحبہ، محبوب صدیقی جیسے قابل اور ایماندار افسران اس اہم محکمے میں کام کرکے گئے ہیں مگر آج بھی اے جی سندھ کے دفتر میں بے حد قابل اور ایماندار افسران موجود ہیں جو ہر سائل کا کام کرتے ہیں، کرپشن سے پاک ہیں، طیب غوری، کامران شمیم، فائق متین، رضوان شمیم جیسے افسران آج بھی ہمارے اداروں میں موجود ہیں۔ میٹرک بورڈ، انٹر بورڈ، ٹیکنیکل بورڈ بھی کرپشن کے گڑ بن چکے ہیں۔ محکمہ تعلیم کا بھی بُرا حال ہے، ایک ایماندار افسر کا تبادلہ ہوا ان کا نام تھا پروفیسر سلمان رضا، نہایت قابل، انہوں نے پرائیویٹ اسکولوں کی لوٹ مار پر اُن کے خلاف کارروائی شروع کی تو پرائیویٹ اسکولوں کی طاقت ور مافیا نے ان کا تبادلہ کروادیا۔ محکمہ صحت جو سرکاری اسپتال چلاتے ہیں ان کا ادویات اور آلات کا فنڈز جعلی طریقے سے ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ بڑی مقدار میں ادویات آتی ہیں جو اسٹور والوں کو کم قیمت پر فروخت کردی جاتی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی، اردو یونیورسٹی کا بھی برا حال ہے جبکہ سندھ کی تمام پرائیویٹ یونیورسٹیاں صرف مال کما رہی ہیں۔ غریب تو ان میں اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مراعات یافتہ طبقے کی تعلیم، انصاف، صحت کا نظام الگ اور غیر مراعات یافتہ کے لیے نہ تعلیم، نہ انصاف، نہ صحت آخر یہ طبقاتی نظام کو کون ٹھیک کرے گا، ہر سیاسی جماعت ناکام نظر آتی ہے، ریاست مدینہ کا خواب صرف خواب ہی تھا بس ایک آخری امید جماعت اسلامی ہے اگر قوم نے نہیں سوچا تو پھر 75 سال اور روتے رہنا۔