ایچی سن کا راج

592

جی ہاں، آج کل ایچی سن کا ہی راج ہے، جہاں جہاں ایچی سن کا زور چلتا ہے، چلا رہا ہے، عمران خان کو جہاں سے بھی غیبی مدد مل رہی ہے اس مدد کا چشمہ یہیں سے پھوٹ رہا ہے، ایک دن کیس کی سماعت کے دوران ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ حفاظتی ضمانت مل جائے گی یا نہیں، مگر کیا ہوا؟ حفاظتی ضمانت مل گئی، لاہور ہائی کورٹ کا حکم تھا کہ عمران خان جیسے مقبول ترین سیاستدان کو بھی اگر کسی معاملے میں حفاظتی ضمانت درکار ہے تو عدالت کے روبرو ذاتی طورپر پیش ہونا پڑے گا، اس کیس میں تحریک انصاف نے چوبیس گھنٹے ٹی وی میڈیا سے کھیلا، سوشل میڈیا کے ذریعے کارکنوں کو متحرک کیا کہ اپنی ریڈلائن بچانے نکلو، ناقابل تسخیر قلعہ سے جب نکلے تو ’’کارکنوں کے رش‘‘ کی وجہ سے ٹانگ پر لگے زخم کے باعث عدالت سے استدعا ہوئی کہ وہ عمران خان کی عدالت سے باہر موجودگی کو حاضری شمار کرلے مگر سابق وزیر اعظم کو گاڑی سے نکل کر عدالت کے کمرے تک جانا ہی پڑا ذاتی طور پر حاضر ہوجانے کے بعد ضمانت کی درخواست ردکرنے کے ٹھوس قانونی جواز میسر نہ رہے۔ تحریک انصاف نے وکٹری نشان بنایا، پیغام اس میں یہ تھا کوئی خان صاحب کے ساتھ ’’زیادتی اور ناانصافی‘‘ نہ کرے خان صاحب کا بیانیہ پھر سوشل میڈیا پر چھایا رہا سوال اٹھانا شروع ہوگئے کہ رعایتیں کیوں مل رہی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو جیسے راہ نماء اور نواز شریف کے لیے بھی کوئی ریڈ لائن تھی یا ہے ایک کو پھانسی کی سزا ملی اور دوسرے کو پاناما کیس میں اقامہ کی سزا ملی، تحریک انصاف کی مہارت کہیںنظر نہیں آرہی بس مہارت جن کی ہے انہی کی ہے ہر رکاوٹ موم کی طرح پگھل رہی ہے۔
اب ایک نکتہ اور دیکھ لیں، 9اپریل کا دن طے کرتے ہوئے عمران خان کے جانثار صدر علوی نے تاریخ دے دی یہ وہی تاریخ ہے کہ جب پچھلے سال انہی دنوں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے اس منصب پر لوٹنے کا سفر لہٰذا 9اپریل 2023ء ہی سے شروع کرنا ہوگا، اب عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لے لیا ہے، نو رکنی بنچ تشکیل پایا ہے تاہم دو جج شامل نہیں کیے گئے اگر دو صوبوں کے انتخابات کے نتائج مرضی کے مل گئے تو قومی اسمبلی کے انتخاب رسمی کارروائی معلوم ہوں گے پھر عارف علوی کو بھی صلہ مل جائے گا، دوسری بڑی پیش رفت یہ کہ چیئرمین نیب آفتاب سلطان عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں مداخلت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے شرائط کے تحت کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے عہدہ چھوڑا ہے مستعفی ہونے والے نیب چیئرمین نے اپنے الوداعی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اصولوں کو برقرار رکھنے پر مطمئن اور خوش ہوں، کسی دبائو کے سامنے نہیں جھکا، یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر سچ یہ ہے کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا کہ پرانا درد ابھی تک نہیں گیا، یہ درد اس وقت شروع ہوا تھا جب ظہیر صاحب کی گفتگو پکڑی گئی، یہ ظہیر صاحب کون ہیں؟ ان کا ذکر اسی حد تک رہنے دیں، سوال یہ ہے کہ جس میں قوت ایمانی ہوتی ہے وہ ڈرتا ہے نہ گھبراتا ہے، مضبوط کردار، ضمیر زندہ ہے اور ایمان کی قوت کام آتی ہے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہے تو پھر اہم عہدوں سے ہٹنے کا جواز باقی نہیں رہتا کسی ایمان دار، خوف خدا رکھنے اور قوت ایمانی رکھنے والے افسر کو دبانا یا اس سے کوئی بھی غلط کام کروانا آسان نہیں ہوتا تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہماری سیاسی تاریخ کیا سبق سکھاتی ہے پھر آج کے حالات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں، کون ہمیں بند گلی میں دھکیل رہا ہے، کون ہے جو خود کو سب سے بالاتر سمجھتا ہے مگر یہ نہیں بتارہا کہ انیس سو پچاسی تک ہم کتنے مقروض تھے اور 2023 میں ہم پر کتنا قرض ہے، اور کس کی وجہ سے ہے یہ وہی ہے جو کسی کو ماننے کسی کی ماننے اور کسی کو سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے، کیا ہم نے ایسی سیاست کی وجہ سے آدھا ملک نہیں گنوایا؟